تشریح:
(1) بعض حضرات نے نقدی کے عوض زمین کو ٹھیکے پر دینا بھی منع قرار دیا ہے۔ ان کی دلیل جامع ترمذی کی ایک روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے زمین کی کچھ پیداوار یا دراہم کے عوض زمین اجرت پر دینے سے منع فرمایا۔ (جامع الترمذي، الأحکام، حدیث:1384) لیکن امام ترمذی ؒ نے خود اس حدیث کو مضطرب قرار دیا ہے۔ امام نسائی ؒ نے بھی اسے معلول قرار دیا ہے کہ اس روایت میں حضرت مجاہد کا سماع حضرت رافع ؓ سے ثابت نہیں۔ حافظ ابن حجر ؒ نے بھی اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ (فتح الباري:32/5) (2) ہمارے ہاں پٹے پر زمین لینے دینے کی مروجہ صورت جائز اور صحیح ہے۔ جس بٹائی کو حرام قرار دیا گیا ہے وہ وہی ہے جس میں کسی خاص رقبے کی پیداوار کو مالک یا کاشتکار کے لیے نامزد کر دیا جاتا ہے یا متعین مقدار غلہ پر معاملہ طے ہوتا ہے۔ اس میں نقصان اور دھوکا دونوں خرابیاں ہیں۔ حضرت لیث نے بھی صراحت کی ہے کہ مزارعت کی وہ صورت ممنوع ہے جس میں دھوکا وغیرہ ہو۔ یہ بات اگرچہ کسی نص سے ثابت نہیں لیکن اہل فہم اپنی فہم سے اس کی حرمت کا ادراک کر سکتے ہیں۔ بہرحال جمہور کے نزدیک کراء الارض کی نص اس بات پر محمول ہے کہ جس میں دھوکا اور جہالت ہو، مطلق طور پر مزارعت منع نہیں ہے اور نہ درہم و دینار، یعنی نقدی ہی کے عوض زمین لینا دینا ممنوع ہے۔ اس سلسلے میں ایک حدیث بھی بیان کی جاتی ہے کہ زمین تو تین آدمی ہی کاشت کر سکتے ہیں: ایک وہ جس کی اپنی زمین ہو، دوسرا وہ جسے بطور عطیہ یا عاریتاً ملی ہو، تیسرا وہ جس نے سونے چاندی کے عوض ٹھیکے پر لی ہو۔ (سنن أبي داود، البیوع، حدیث:3400) لیکن امام نسائی ؒ نے وضاحت کی ہے کہ مرفوع حدیث میں صرف محاقلہ اور مزابنہ کی ممانعت ہے، اس کے بعد والا مذکورہ کلام مدرج ہے اور انہوں نے اسے سعید بن مسیب کا کلام قرار دیا ہے۔ (سنن النسائي، البیوع، حدیث:3921) امام مالک نے بھی مؤطا میں اسے سعید بن مسیب کا کلام کہا ہے۔ (فتح الباري:33/5)