تشریح:
(1) پانی کو اس وقت روکنا ممنوع ہے جب وہ پانی مالک کی ضروریات سے زائد ہو۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ جب پانی ضروریات سے زائد نہ ہو تو اس کا روکنا جائز ہے۔ زائد پانی وہ ہے جو مالک، اس کے اہل و عیال، کاشتکاری اور مویشیوں کی ضروریات سے فالتو ہو، نیز اس سے مراد وہ پانی ہے جو برتنوں میں محفوظ نہ ہو کیونکہ برتن میں محفوظ زائد پانی کا دینا ضروری نہیں الا یہ کہ پانی لینے والا انتہائی مجبور ہو۔ (2) ایک شخص جب کنواں بناتا تو اس کے اطراف میں ایک رقبہ مخصوص ہو جاتا جہاں جانور آتے اور پانی پیتے، کنویں کے پانی سے سیراب ہو کر آس پاس گھاس بھی اُگ آتی۔ اب کنویں والے گھاس کی حفاظت کا بہانہ بنا کر فالتو پانی روک لیتے رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع فرمایا دیا۔ ابن بطال نے کہا ہے کہ پانی کا مالک خود اور اپنی فصل کے سیراب ہونے تک زیادہ حق دار ہے، اس پر علماء کا اتفاق ہے۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب پانی میں حق ملکیت کو تسلیم کیا جائے گا، جمہور اسی بات کے قائل ہیں کہ پانی ایسی مشترک چیز نہیں جس کا کوئی مالک نہ ہو۔ (فتح الباري:40/5) الغرض زائد از ضرورت پانی کسی طرح بھی ہو اسے روکنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔