تشریح:
(1) اس حدیث کے مطابق تیسرے شخص کو فالتو پانی سے منع کرنے پر عتاب ہوا، اس سے معلوم ہوا کہ اصل پانی کا وہ حق دار تھا، اگر وہ اصل پانی کو بقدر ضرورت روک لے تو وہ حق بجانب ہے کیونکہ یہ اس کا حق ہے۔ بعض حضرات نے اس طرح مناسبت پیدا کی ہے کہ اللہ کی طرف سے عتاب ہوا کہ پانی تیرا پیدا کردہ نہیں تھا، اس سے معلوم ہوا کہ اگر پانی کسی نے اپنی محنت سے پیدا کیا ہو جیسا کہ کنواں کھودا جاتا ہے یا مشکیزوں میں بھرا جاتا ہے تو وہ اس کا حق دار ہو گا۔ (2) واضح رہے کہ حدیث میں عصر کے بعد قسم اٹھانے کی قید اتفاقی ہے احترازی نہیں کیونکہ عام طور پر لوگ اسی وقت قسم اٹھاتے ہیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس وقت فرشتوں کے آنے جانے کا وقت ہے۔ وقت کی عظمت سے گناہوں میں بھی سنگینی آ جاتی ہے۔ (3) حدیث کے آخر میں امام بخاری ؒ نے سند کے متعلق جو وضاحت فرمائی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ سفیان اس روایت کو اکثر مرسل بیان کرتے ہیں جبکہ گزشتہ سلسلۂ روایت میں ان سے اس کا موصول ہونا بھی ثابت ہے۔