تشریح:
بندوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا معاملہ ان کی نیتوں کے مطابق ہوتا ہے۔ اگر وہ نیت رکھتے ہیں تو انہیں دنیا و آخرت میں اس کا پھل دیتا ہے اور اگر کسی کی نیت میں فساد ہے تو اسے اس کی بدنیتی کی وجہ سے برے اثرات سے دوچار کر دیتا ہے۔ جو انسان کسی سے کوئی چیز یا نقدی لیتا ہے اور اس کی نیت ادا کرنے کی ہوتی ہے تو اس کی ادائیگی کے لیے اللہ تعالیٰ دنیا میں کوئی نہ کوئی سبب پیدا کر دیتا ہے یا پھر آخرت میں اللہ تعالیٰ قرض خواہ کو حوریں اور خوبصورت محلات دے کر راضی کر دے گا اور مقروض کو لوگوں کے سامنے ذلیل و خوار نہیں کرے گا۔ اس کے برعکس اگر اس کی نیت ادا کرنے کی نہ ہو تو اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کی دنیا ہی میں ساکھ خراب کر دیتا ہے۔ دوسرے لوگ اس کی بے ایمانی سے واقف ہو کر اس کے ساتھ لین دین ترک کر دیتے ہیں، نیز اس کی زندگی تنگ ہو جاتی ہے یا اسے کوئی جانی یا مالی نقصان ہوتا ہے اور آخرت میں بھی اسے عذاب سے دوچار کیا جائے گا، الغرض قرض لیتے وقت ہی ادا کرنے کی نیت اور فکر ضروری ہے۔