تشریح:
(1) رسول اللہ ﷺ نے قرض خواہوں کو حضرت جابر ؓ کے باغ کا پھل لینے کی پیش کش فرمائی لیکن وہ اس پر راضی نہ ہوئے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پھل کی مقدار ان کے قرض سے کم تھی، اس پر رسول اللہ ﷺ نے انہیں راضی کرنا چاہا۔ اس پر امام بخاری ؒ نے اپنے عنوان کی بنیاد رکھی ہے کہ اگر کسی کو اس کے حق سے کم دینا جائز نہ ہوتا تو آپ ایسا کیوں کرتے لیکن کم دینے کی صورت میں حق دار کی رضا مندی شرط ہے، جب وہ راضی نہ ہوئے تو آپ نے اس پر اصرار نہیں کیا بلکہ معاملہ اگلے دن پر چھوڑ دیا (2) جب آدمی کو قرض کا کچھ حصہ معاف کرنے کا اختیار ہے تو وہ تمام قرض بھی معاف کر سکتا ہے، ان دونوں میں کوئی فرق نہیں۔ اس مقام پر امام بخاری ؒ نے ایک وہم دور کیا ہے کہ کسی نے دوسرے سے دس ہزار قرض لینا تھا، جب وہ آٹھ ہزار لینے پر راضی ہو گیا تو دو ہزار مقروض کے ہاں بلا عوض رہ گئے، شاید یہ سود ہو۔ امام بخاری ؒ نے اس وہم کو دور کیا کہ قرض خواہ کو اپنا قرض معاف کرنے کا اختیار ہے، خواہ کچھ حصہ چھوڑ دے یا تمام قرض اس پر صدقہ کر دے۔ قرآن کریم میں اس کا اشارہ موجود ہے۔ (البقرة:280:2)