تشریح:
(1) امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ قرض کی ادائیگی میں سستی اور کاہلی کی جاتی ہے، یعنی اس میں وہ بات جائز ہوتی ہے جو عام لین دین میں جائز نہیں ہوتی، چنانچہ خشک کھجور کے عوض درخت پر لگی ہوئی تازہ کھجور دینا جائز نہیں صرف محدود پیمانے پر عرایا میں جائز ہے۔ لیکن قرض کی ادائیگی اس انداز سے ہو سکتی ہے کیونکہ حضرت جابر ؓ نے یہودی کو خشک کھجوروں کے عوض تازہ کھجوریں ادا کیں تاکہ باپ کا قرض اتر جائے۔ اس یہودی نے اپنے قرض کے عوض باغ کی تازہ کھجوریں یک مشت وصول کر لیں، جبکہ رسول اللہ ﷺ اس سے سارے باغ کی کھجوریں لینے کی پیشکش کر چکے تھے، لیکن وہ اس کے قرض سے کم معلوم ہوتی تھیں، اس لیے وہ اس پر راضی نہ ہوا۔ اگر کھجوریں زیادہ ہوتیں تو یہودی خوشی سے اس پیشکش کو قبول کر لیتا۔ رسول اللہ ﷺ کی دعا سے اس باغ سے 47 وسق کھجوریں اتریں۔ (2) حضرت عمر ؓ کو بتانے کی وجہ یہ تھی کہ آپ کو اس یہودی پر بڑا غصہ تھا کہ رسول اللہ ﷺ سفارش کے لیے اس کے پاس چل کر گئے لیکن وہ اپنا حق ساقط کرنے پر راضی نہ ہوا۔ رسول اللہ ﷺ نے انہیں اطلاع دی تاکہ ان کا غصہ ٹھنڈا ہو جائے، نیز حضرت عمر ؓ کو حضرت جابر ؓ کے والد کے قرض کی بہت فکر لاحق رہتی تھی، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے انہیں اطلاع دینا مناسب خیال فرمایا۔