تشریح:
1۔ اقذار کے متعلق وضاحت کی جارہی ہے جو قذر کی جمع ہے۔ قابل نفرت چیز کو قذر کہا جاتا ہے۔ اس کی دوقسمیں ہیں: * قابل نفرت کے ساتھ ساتھ نجس بھی ہو، جیسے بول وبراز اورمنی وغیرہ۔ *قابل نفرت ہونے کے باوجود ناپاک نہ ہو، جیسے تھوک، بلغم اور پسینہ وغیرہ۔ اس باب میں امام بخاری ان اقذار کا حکم بیان کرتے ہیں جو قابل نفرت تو ہیں لیکن نجس نہیں۔ اس کے بیان کرنے کی ضرورت اس لیے پیدا ہوئی کہ حضرت سلمان فارسی ؓ اور ابراہیم نخعی ؒ تھوک اور ناک سے بہنے والی رطوبت کو منہ اور ناک سے الگ ہونے کے بعد نجس خیال کرتے تھے۔ اس مسئلے میں امام بخاری ؒ جمہور کے ہم نوا ہیں کہ تھوک اوربلغم وغیرہ پاک ہیں، اگر کپڑے کو لگ جائیں تو کپڑا ناپاک نہیں ہوتا۔ اسی طرح اگر یہ چیزیں پانی میں گرجائیں تو اس سے پانی نجس نہیں ہوتا۔ یہ دوسری بات ہے کہ اس کے استعمال سے دوسروں کو گھن آئے لیکن ہر گھن والی چیز کا ناپاک ہونا ضروری نہیں۔ حافظ ابن حجرؒ نے ابن حزم کے حوالے سے لکھا ہے کہ حضرت سلمان فارسی ؒ اورابراہیم نخعی کے نزدیک لعاب دہن نجس ہے بشرطیکہ منہ سے الگ ہوجائے۔ (فتح الباري:459/1)
2۔ علامہ عینی نے لکھا ہے: تھوک کے متعلق کچھ تفصیل ہے کہ اگر منہ پاک ہوگا تو تھوک بھی پاک ہوگا اوراگر تھوک ایسے شخص کا ہو جس نے شراب نوشی کی ہے تو اس وقت اس کا تھوک بھی نجس ہوگا اور جوٹھا بھی ناپاک ہوگا۔ (عمدةالقاري:681/2)
3۔ مروان کے والد فتح مکہ کے دن اسلام لائے تھے، بعض وجوہات کی بناپر رسول اللہ ﷺ نے انھیں جلا وطن کردیا تھا، حضرت مروان بھی ان کے ساتھ طائف چلے گئے۔ حضرت عثمان ؓ نے اپنے دورخلافت میں باپ حکم اور بیٹے مروان دونوں کو مدینہ طیبہ بلا لیا تھا۔ مروان حدیبیہ کے موقع پر موجود نہ تھے، پھر ان سے مذکورہ روایت کی کیا حیثیت ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اصل روایت تو حضرت مسورؓ سے ہے اور اس کے ساتھ مروان کی روایت کو بطور تائید ملا دیا گیا ہے، لیکن اعتراض پھر بھی باقی رہتا ہے کہ جو شخص موقع پر وہاں موجود نہیں تھا اس کی روایت سے تقویت حاصل کرنا چہ معنی دارد؟ ممکن ہے کہ حضرت مروان نے صلح حدیبیہ سے متعلق اس روایت کو کسی اور صحابی سے سنا ہو۔ واللہ أعلم۔ مفصل روایت صلح حدیبیہ کے باب میں بیان ہوگی۔
4۔ رسول اللہ ﷺ کا کپڑے میں تھوکنا اس وجہ سے تھا کہ آپ نے مسجد میں دیوار کے ساتھ تھوک لگا ہوا دیکھا تو آپ نے فرمایا کہ دوران نماز میں اگر تھوکنے کی ضرورت ہوتو اپنی بائیں طرف یا قدموں کے نیچے تھوکے، پھر آپ نے چادر کے کونے پر تھوک کر اس کے کناروں کو مل دیا اور فرمایا کہ اس طرح بھی کیا جا سکتا ہے، لیکن کپڑے میں تھوکنے کی صورت اس وقت ہے جب اسے جلدی فراغت کی ضرورت ہو جیساکہ امام بخاری ؒ نے کتاب الصلاۃ میں ایک عنوان (باب:39) بایں الفاظ قائم کیا ہے: (إذا بدره البزاق فليأخذ بطرف ثوبه) ’’جب تھوک کا غلبہ ہوتوچادر کے کسی کنارے میں تھوک دے۔‘‘ اگرچہ مذکورہ حدیث سے یہ بات معلوم نہیں ہوتی، تاہم صحیح مسلم کی ایک روایت میں اس کی وضاحت ہے۔ (فتح الباري:465/1) چونکہ وہ روایت امام بخاری ؒ کی شرط کے مطابق نہ تھی، لہٰذا عنوان میں اس کی طرف اشارہ کردیا ہے۔ (صحیح مسلم، حدیث:1228(550)) ان احادیث کی روشنی میں معلوم ہوا کہ اگرنماز میں اس کی ضرورت پیش آجائے تو اسے منہ میں جمع کرنے کی بجائے اپنے بائیں طرف تھوک لے اور اگر بائیں جانب کوئی شخص نماز پڑھ رہا ہوتو یہ اپنے پاؤں کے نیچے تھوک لے اور اگرغلبے کی صورت ہوتو کپڑے میں تھوک کراسے مل لے۔ لیکن موجودہ حالات میں بائیں جانب یا قدموں کے نیچے تھوکنے کے بجائے کپڑے والی صورت ہی متعین ہے۔ واللہ أعلم ۔