تشریح:
(1) اگر کسی کی طرف سے تخریب کاری کا اندیشہ ہو تو اس کی نقل و حرکت پر نظر رکھی جا سکتی ہے۔ اسے قید بھی کیا جا سکتا ہے۔ معاشرے کو پرامن رکھنے کے لیے جس شخص سے جرم ثابت ہو جائے، اسے قانون کے مطابق سزا دی جاتی ہے اور جس شخص کی طرف سے اندیشہ ہو کہ وہ امن عامہ تباہ کر سکتا ہے تو حفاظت عامہ کی خاطر اسے بھی قید کیا جا سکتا ہے۔ اسے دور حاضر کی اصطلاح میں پبلک سیفٹی کہتے ہیں جسے آج کل حکومتیں اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ (2) عہد نبوی میں کوئی الگ جیل خانہ نہ تھا، مسجد ہی سے کام لیا گیا، یہ اس لیے بھی ضروری تھا کہ ثمامہ کو اسلام اور اہل اسلام کو دیکھنے کا بہت قریب سے موقع دیا جائے تاکہ وہ اسلام کی خوبیوں اور اہل اسلام کے اوصاف حسنہ کا بغور مطالعہ کر سکے۔ بالآخر وہ رسول اللہ ﷺ کے خلق عظیم سے متاثر ہو کر مسلمان ہو گیا۔ امام بخاری ؒ نے اس واقعے سے یہ ثابت کیا ہے کہ بعض اوقات کسی انسان کو وقتی طور پر قید کرنا ضروری ہوتا ہے اور ایسا کرنا گناہ نہیں بلکہ نتیجے اور انجام کے لحاظ سے مفید ثابت ہوتا ہے۔