تشریح:
(1) عنوان میں ملازمت کا لفظ استعمال ہوا ہے، اس کے معنی نوکری کرنا نہیں بلکہ کسی کے پیچھے پڑنا اور نگرانی کرنا ہیں۔ آپ نے کسی سے کچھ لینا ہے تو آپ اس کا تعاقب کر سکتے ہیں، اسے اپنی نگرانی میں لے سکتے ہیں، چنانچہ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ مقروض کو پابند کیا جا سکتا ہے۔ اگر یہ کام ناجائز ہوتا تو رسول اللہ ﷺ اس سے منع فرما دیتے۔ آپ ﷺ کا اس کے متعلق انکار نہ کرنا اس کے جواز کی دلیل ہے۔ ہاں اگر مقروض غریب اور نادار ہو تو اس کے ساتھ نرمی کرنی چاہیے۔ اسے نگرانی میں لینے کے بجائے اسے مزید مہلت دی جائے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں واضح طور پر اس کی تلقین فرمائی ہے۔ (2) اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نیک کام کے لیے سفارش کی جا سکتی ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے قرض معاف کر دینے کی سفارش کی تھی۔