تشریح:
(1) گمشدہ چیز کے متعلق بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اسے اٹھانا جائز نہیں کیونکہ یہ دوسرے کا مال ہے، اس کی اجازت کے بغیر اسے اٹھانا درست نہیں۔ بعض کے نزدیک اٹھانا جائز ہے مگر نہ اٹھانا بہتر ہے، ممکن ہے کہ اس کا مالک تلاش کرتے کرتے اسی جگہ پہنچ جائے، لیکن عام محدثین اور فقہاء کا موقف ہے کہ چھوڑ دینے سے اس کا اٹھا لینا بہتر ہے کیونکہ گمشدہ مال بہرحال ضائع نہیں ہونا چاہیے اور نہ آسانی سے اسے ہضم ہی کیا جا سکتا ہے۔ (2) گری پڑی چیز کی دو قسمیں ہیں: ایک یہ کہ وہ حقیر اور معمولی سی چیز ہو، عموماً مالک اسے تلاش نہیں کرتا۔ اسے اٹھا لینا اور اس سے نفع اٹھانا جائز ہے۔ اگر مالک اس کے ہاتھ میں دیکھ لے تو واپس بھی لے سکتا ہے۔ دوسری قسم یہ ہے کہ وہ چیز قیمتی اور کثیر مال ہو جس کے متعلق معلوم ہو کہ اس کا مالک اسے ضرور تلاش کرے گا۔ اسے اٹھا لیا جائے گا۔ اٹھانے والا اس کا بیگ یا بٹوہ وغیرہ اچھی طرح پہچان لے، اس کی رقم گن لے اور اس کے بندھن یا زنجیر کو بھی نظر میں رکھے۔ مساجد، شارع عام، بازار اور پبلک مقامات پر اس کی تشہیر کرے، بالخصوص جہاں سے وہ چیز ملی ہے اس کے آس پاس خوب اعلان کیا جائے۔ ایک سال تک اس کی تشہیر ضروری ہے۔ اس دوران میں اگر کوئی آ جائے اور نشانی بتائے تو اس کے حوالے کر دیا جائے، بصورت دیگر بطور امانت اس سے فائدہ اٹھانا جائز ہے۔ اس کے بعد بھی جب کبھی اس کا مالک مل جائے تو اسے ادا کرنا ضروری ہے۔ (3) روایت کے آخر میں تین سال یا ایک سال کا ذکر ہے، اس کے متعلق محتاط موقف یہ ہے کہ ایک سال تک اس کی تشہیر ضروری ہے۔ ایک سال سے زیادہ تشہیر کرنا مزید تقویٰ اور پرہیزگاری کی علامت ہے، واجب نہیں، تاہم اکثر محدثین نے تین سال کے الفاظ کو راوئ حدیث ’’سلمہ بن کہیل‘‘ کی خطا قرار دیا ہے۔ دیگر روایات کے پیش نظر جو بات پایۂ ثبوت کو پہنچتی ہے وہ ایک سال تک تشہیر ہے کیونکہ یہ مال کسی کا ہے اس کے جائز ہونے کے لیے کوئی دلیل ہونی چاہیے۔ شریعت نے ایک شرط کے ساتھ اسے جائز قرار دیا ہے کہ اس کے متعلق ایک سال تک اعلان کیا جائے۔ مزید برآں اس کی حفاظت بھی کی جائے تاکہ وہ ضائع نہ ہونے پائے۔ (4) اس حدیث میں نشانی بتانے کا ذکر نہیں ہے، تاہم امام بخاری ؒ نے عنوان قائم کر کے ان روایات کی طرف اشارہ کیا ہے جن میں ٹھیک ٹھیک نشانی بتانے کا ذکر ہے۔ نشانی بتانے کے بعد گمشدہ چیز اس کے حوالے کر دی جائے، مزید گواہوں کی ضرورت نہیں۔