تشریح:
(1) اونٹ کو ریگستان کا جہاز کہا جاتا ہے۔ راستوں کے متعلق اونٹ بہت مہارت رکھتے ہیں۔ گم ہونے کی صورت میں عام طور پر وہ کسی نہ کسی دن گھر پہنچ جاتے ہیں، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اسے پکڑنے کی ضرورت نہیں۔ وہ خود جنگل کی جھاڑیوں میں چرے گا اور کسی چشمے سے پانی پی لے گا، یہاں تک کہ اس کا مالک اسے پا لے گا۔ (2) اس سے معلوم ہوا کہ ایسے حیوانات جو چھوٹے درندوں سے اپنی حفاظت کر سکتے ہیں، مثلاً: اونٹ، گھوڑا، گائے اور بیل وغیرہ یا اڑنے والے پرندے، انہیں پکڑنا جائز نہیں۔ (3) ہمارے رجحان کے مطابق حدیث میں مذکور حکم جنگل کے لیے ہے۔ اگر کسی بستی میں اونٹ ملے تو اسے پکڑ لینا چاہیے تاکہ مسلمان کا مال ضائع نہ ہو اور وہ خود بھی کسی کی فصل خراب نہ کرے، پھر اسے نہ پکڑنے سے ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ وہ کسی چور ڈاکو کے ہاتھ لگ جائے گا۔ دورِ حاضر میں تو کسی مقام پر امن نہیں، ہر جگہ چور ڈاکو دندناتے پھرتے ہیں، اس بنا پر جہاں بھی کسی بھائی کا گمشدہ جانور ملے تو حفاظت کی غرض سے پکڑ لیا جائے یا اسے حکومت کے قائم کردہ کانجی ہاؤس میں پہنچا دیا جائے۔ مالک کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے گمشدہ جانور کے متعلق کانجی ہاؤس سے رابطہ کرے۔