تشریح:
(1) اگر ایک مشترکہ چیز میں چند لوگ برابر حقوق رکھتے ہوں اور ان کے درمیان حقوق کی تقسیم میں فیصلہ مشکل یا ناممکن ہو تو قرعہ اندازی کی جا سکتی ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ جب کسی سفر جنگ پر روانہ ہوتے تو ازواج مطہرات کے درمیان قرعہ اندازی کرتے کہ کون سی زوجۂ محترمہ سفر میں آپ کی رفاقت اختیار کرے گی۔ (2) امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو قرعہ اندازی سے حصے متعین کرنے کے جواز میں پیش کیا ہے۔ بلاشبہ قرعہ اندازی حقوق تقسیم کرنے کا ایک دینی طریقہ ہے جبکہ کچھ لوگ اس کے مخالف ہیں۔ وہ پانسے کے ذریعے سے تقسیم کرنے پر اسے قیاس کرتے ہیں جس کی قرآن میں ممانعت ہے۔ قرعہ اندازی اور تیروں کے ذریعے سے قسمت آزمانی میں بہت فرق ہے کیونکہ قرعہ اندازی کا ثبوت صحیح احادیث سے ملتا ہے، اس لیے اسے تیروں سے تشبیہ دینا صحیح نہیں۔ (3) واضح رہے کہ گناہ کا ارتکاب کرنا اور گناہ سامنے ہوتا دیکھ کر ٹھنڈے پیٹوں (آرام اور خوشی سے) برداشت کر لینا جرم کے لحاظ سے دونوں برابر ہیں اور دونوں ہی تباہی و بربادی کا باعث ہیں۔