تشریح:
(1) مشرکین سے مراد وہ کافر ہیں جو دارالاسلام میں امن لے کر رہتے ہیں اور حربی نہ ہوں کیونکہ مشرک حربی اور مسلمان کے درمیان شراکت نہیں ہو سکتی، حدیث میں ذمی کا ذکر ہے جبکہ عنوان میں مشرک کا بیان ہوا ہے۔ امام بخاری ؒ نے ایسے مشرک کو ذمی پر قیاس کیا ہے۔ مسلمان اور ذمی کے درمیان شراکت ہو سکتی ہے کیونکہ شراکت اجارے کی ایک قسم ہے اور ذمی کو اجرت پر رکھنا جائز ہے۔ مزارعت میں شراکت بالاتفاق جائز ہے، البتہ اس کے علاوہ دیگر کاروبار میں امام مالک ؒ اللہ ذمی کی شراکت ناجائز خیال کرتے ہیں کیونکہ ذمی کبھی شراب کی تجارت کر لیتا ہے اور کبھی سودی کاروبار کرنے لگتا ہے اور اس قسم کی تجارت ایک مسلمان کے لیے جائز نہیں، البتہ اگر وہ مسلمان کی نگرانی میں کاروبار کرے تو بالاتفاق جائز ہے کیونکہ اس میں ناجائز کاروبار کا خطرہ نہیں ہے۔ (فتح الباري:167/5) (2) ہمارے رجحان کے مطابق ایک مسلمان کسی بھی غیر مسلم سے معاہدۂ تجارت کر سکتا ہے بشرطیکہ وہ تجارت شرعی ہو، اس میں کوئی حرج نہیں، البتہ جن کافروں سے جنگ کا سلسلہ جاری ہے، ان سے شراکت کا معاملہ کرنا درست نہیں۔ واللہ أعلم