باب: رات کو وضو کر کے سونے والے کی فضیلت کے بیان میں۔
)
Sahi-Bukhari:
Ablutions (Wudu')
(Chapter: The superiority of a person who sleeps with ablution)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
252.
حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی ﷺ نے مجھ سے فرمایا: ’’جب تم اپنی خوابگاہ میں جاؤ تو پہلے نماز کا سا وضو کرو، پھر اپنے دائیں پہلو پر لیٹ کر یہ دعا پڑھو: اللَّهُمَّ أَسْلَمْتُ وَجْهِي إِلَيْكَ، وَفَوَّضْتُ اے اللہ! تیرے ثواب کے شوق میں اور تیرے عذاب سے ڈرتے ہوئے، میں نے خود کو تیرے سپرد کر دیا اور اپنا کام تجھے سونپ دیا، نیز تجھے اپنا پشت پناہ بنا لیا۔ تجھ سے بھاگ کر کہیں پناہ اور ٹھکانہ نہیں مگر تیرے ہی پاس۔ اے اللہ! میں اس کتاب پر ایمان لایا جو تو نے اتاری اور تیرے اس نبی پر یقین کیا جسے تو نے بھیجا۔ اب اگر تم اس رات مر جاؤ تو فطرتِ اسلام پر مرو گے، نیز یہ دعائیہ کلمات سب باتوں سے فارغ ہو کر (بالکل سوتے وقت) پڑھو۔’’حضرت براء ؓ کہتے ہیں کہ میں نے یہ کلمات آپ کے سامنے دہرائے۔ جب میں اس جگہ پہنچا: (اللَّهُمَّ آمَنْتُ بِكِتَابِكَ الَّذِي أَنْزَلْتَ) تو اس کے بعد میں نے (وَرَسُولِكَ) کہہ دیا تو آپ نے فرمایا: ’’نہیں، بلکہ یوں کہو: (وَنَبِيِّكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ)‘‘
تشریح:
1۔ معلوم ہوا کہ ادعیہ مسنونہ اور اذکار ماثورہ میں جو الفاظ رسول اللہ ﷺ سے منقول ہیں ان میں تصرف درست نہیں۔ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے کہ مجھے اللہ کی طرف سے جامع کلمات عطا ہوئے ہیں۔ اس جامیعت وخصومیت کے پیش نظر رسول اللہ ﷺ نے حضرت براء بن عازب ؓ کو (نبيك) کے بجائے (رسولك) پڑھنے سے اس بنا پر منع فرمایا کہ نبی میں جو جامعیت ہے وہ رسول میں نہیں، کیونکہ رسول کا اطلاق فرشتوں پر بھی ہوا ہے، حالانکہ وہ نبی نہیں، نیز ان دعائیہ کلمات میں نبوت ورسالت کے دونوں اوصاف کا ذکر ہے، جبکہ (رسولك) کہنے سے صرف ایک وصف کا ذکر ہوتا ہے۔ (فتح الباري:466/1) اس حدیث سے قبل از نیند باوضو ہونے کی فضیلت ثابت ہوتی ہے، نیز واضح رہے کہ یہ وضو نماز کا نہیں بلکہ اسے وضوءِ احداث کہتے ہیں۔ حدیث میں ہر قسم کے وضو کو"شطر الإیمان" کا درجہ دیاگیا ہے۔ اس پر یہ سوال ہوتا ہے کہ اگرکوئی شخص پہلے سے باوضو ہوتوکیا وہ بھی سونے کے وقت دوبارہ وضو کرے؟ اس کے متعلق حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ بظاہر حدیث الباب سے تجدید وضو کا مفہوم معلوم ہوتا ہے، یعنی اگرچہ وہ طہارت سے ہو پھر بھی وضو کرے، تاہم احتمال اس امر کا بھی ہے کہ نیند کے وقت امر وضو حالتِ حدث ہی کے ساتھ خاص ہو۔ (فتح الباري:465/1) علامہ عینی کی رائے یہ ہے کہ اگر پہلے سے باوضو ہے تو وہ پہلا وضو ہی کافی ہے، کیونکہ مقصود طہارت کی حالت میں سونا ہے، مبادا اگررات کو موت آجائے تو بے طہارت مرے، نیز اس وضو کی برکت سے اس کو اچھے اور سچے خواب نظرآئیں گے اور وہ شیطانی اثرات سے بھی محفوظ رہے گا۔ (عمدة القاري:698/2) 3۔ دائیں جانب کو ترجیح دینا تمام مواقع میں شریعت کو زیادہ پسند ہے، اسی طرح سوتے وقت دائیں کروٹ پسند کی گئی ہے کہ ایسا کرنے سے دل معلق رہتا ہے۔ نیند کا استغراق نہیں ہوتا، اس صورت میں انسان سہولت اور عجلت سے بیدار ہوسکتا ہے۔ (الموت على الفِطْرَةِ) کا مطلب یہ ہے کہ جس فطری حالت میں انسان گناہوں کے بغیر دنیا میں آیا تھا، اسی حالت پر گناہوں کی آلائش کے بغیر ہی واپس لوٹ جائے گا۔ واللہ أعلم۔ 4 ۔ حافظ ابن حجر ؒ نے لکھاہے کہ حضرت امام بخاری ؒ نے مذکورہ حدیث پر کتاب الوضو کو اس لیے ختم کیا ہے کہ یہ انسان کے زمانہ بیداری کا آخری وضو ہوتا ہے، نیز حدیث کے مطابق کلمات مذکورہ کو بیداری کے آخری کلمات قراردیا ہے، لہذا اس سے امام بخاری ؒ نے ختم کتاب کی طرف اشارہ کردیا۔ (فتح الباري:466/1) امام بخاری ؒ کا طریقہ کار یہ ہے کہ کتاب کے اختتام پر آخرت کی طرف توجہ دلاتے ہیں اور موت کی یاد دہانی کراتے ہیں، چنانچہ یہاں بھی (فَإِنْ مِتَّ) کے الفاظ سے وضاحت کے ساتھ اس کی طرف اشارہ کردیا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
249
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
247
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
247
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
247
تمہید کتاب
ہر مکلف پر سب سے پہلے ایمان کی پابندی عائد ہوتی ہے ، پھر وہ چیزیں جو ایمان کے لیے مطلوب ہیں اور جن پر عمل پیرا ہونے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں، ایمان کے بعد اعمال کی ضرورت ہے کیونکہ اعمال ہی ایمان کے لیے سیڑھی کاکام دیتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ) "صاف ستھرے کلمات اللہ کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل انھیں بلند کرتے ہیں۔"( فاطر:35۔10۔) اعمال میں سب سے افضل عمل نماز ہے کیونکہ قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کے متعلق سوال ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ارکان اسلام میں سے نماز کی ادائیگی کے متعلق قرآن مجید نے بہت زور دیا ہے، نماز کی قبولیت طہارت پر موقوف ہے اور طہارت نماز کے لیے شرط ہے اور شرط ہمیشہ مشروط پر مقدم ہوتی ہے ،اس لیے عبادات سے پہلے کتاب ولوضو کو بیان کیا گیا ہے۔لفظ وضو وضاءۃسے مشتق ہے جس کے لغوی معنی خوبصورتی اور چمک ہیں۔شرعی اصطلاح میں ایک خاص طریقے سے مخصوص اعضاء کو دھونا وضو کہلاتا ہے۔ لغوی معنی سے اس کی مطابقت یہ ہے کہ وضو کرنے والا بھی پانی کے استعمال کرنے سے صاف ستھرا اور خوبصورت ہو جاتا ہے۔نیز قیامت کے دن اعضائے وضو خوبصورت ہوں گے اور ان پر چمک ہوگی۔ لفظ وضو کی داؤ پر اگر پیش پڑھی جائے تو معنی اصطلاحی وضو ہوتے ہیں، واؤ فتحہ کے ساتھ ہوتو وہ پانی مراد ہوتا ہے جو اس عمل کا ذریعہ ہے۔ اور واؤ کو کسرے کے ساتھ پڑھنے سے وہ برتن مراد ہوتا ہے جس میں وضو کے لیے پانی ڈالا جاتا ہے۔وضو ،دروضو و ضو تازہ دار"وضو کا پانی وضو کے برتن میں وضو تازہ کرو۔"عبادت نماز کے لیے وضو کا عمل ان خصوصیات اسلام میں سے ہے جن کی نظیر دیگر مذاہب عالم میں نہیں ملتی، اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بڑے عنوان کے تحت وضو سے متعلق چھوٹے چھوٹے 75 ذیلی عنوان قائم کیے ہیں جن میں اس کا وجوب ،علت وجوب ، اہمیت،وافادیت ،فضیلت وخصوصیت ،شرائط وواجبات ، صفات و مقدمات اور احکام و آداب بیان فرمائے ہیں۔چونکہ وضو سے پہلے انسانی حاجات سے فارغ ہونا ضروری ہے، اس لیے گھر اور باہر اس سے فراغت کے آداب واحکام اور حدود و شرائط بیان کی ہیں پھر جس پانی سے وضو کیا جاتا ہے اور جس برتن میں پانی ڈالاجاتا ہے اس کی طہارت ، نجاست آلود ہونے کی صورت میں اس کا طریقہ طہارت ، پھر وضو کے لیے مقدار پانی اور نواقص وضو کی وضاحت کی ہے وضو سے بچا ہوا پانی اس کا استعمال کن چیزوں کے استعمال کے بعد وضو ضروری ہے یا ضروری نہیں۔؟اس مناسبت سے پیشاب کے ااحکام ،حیوانات کے بول و براز کے مسائل پھر مسواک کے فوائد بیان کیے ہیں آخر میں ہمیشہ باوضو رہنے کی فضیلت بیان کر کے اس قسم کے پاکیزہ عمل کو اپنانے کی تلقین فرمائی ہے۔ الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب الوضوء میں بے شمار معارف وحقائق اور لطائف و دقائق بیان کیے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اس مختصر تمہید کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس کا مطالعہ کریں تاکہ ہمیں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی روایت و فقاہت کا عملی تجربہ ہو۔ واللہ ولی التوفیق وھو الہادی من یشاء الی صراط مستقیم ۔
حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی ﷺ نے مجھ سے فرمایا: ’’جب تم اپنی خوابگاہ میں جاؤ تو پہلے نماز کا سا وضو کرو، پھر اپنے دائیں پہلو پر لیٹ کر یہ دعا پڑھو: اللَّهُمَّ أَسْلَمْتُ وَجْهِي إِلَيْكَ، وَفَوَّضْتُ اے اللہ! تیرے ثواب کے شوق میں اور تیرے عذاب سے ڈرتے ہوئے، میں نے خود کو تیرے سپرد کر دیا اور اپنا کام تجھے سونپ دیا، نیز تجھے اپنا پشت پناہ بنا لیا۔ تجھ سے بھاگ کر کہیں پناہ اور ٹھکانہ نہیں مگر تیرے ہی پاس۔ اے اللہ! میں اس کتاب پر ایمان لایا جو تو نے اتاری اور تیرے اس نبی پر یقین کیا جسے تو نے بھیجا۔ اب اگر تم اس رات مر جاؤ تو فطرتِ اسلام پر مرو گے، نیز یہ دعائیہ کلمات سب باتوں سے فارغ ہو کر (بالکل سوتے وقت) پڑھو۔’’حضرت براء ؓ کہتے ہیں کہ میں نے یہ کلمات آپ کے سامنے دہرائے۔ جب میں اس جگہ پہنچا: (اللَّهُمَّ آمَنْتُ بِكِتَابِكَ الَّذِي أَنْزَلْتَ) تو اس کے بعد میں نے (وَرَسُولِكَ) کہہ دیا تو آپ نے فرمایا: ’’نہیں، بلکہ یوں کہو: (وَنَبِيِّكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ)‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ معلوم ہوا کہ ادعیہ مسنونہ اور اذکار ماثورہ میں جو الفاظ رسول اللہ ﷺ سے منقول ہیں ان میں تصرف درست نہیں۔ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے کہ مجھے اللہ کی طرف سے جامع کلمات عطا ہوئے ہیں۔ اس جامیعت وخصومیت کے پیش نظر رسول اللہ ﷺ نے حضرت براء بن عازب ؓ کو (نبيك) کے بجائے (رسولك) پڑھنے سے اس بنا پر منع فرمایا کہ نبی میں جو جامعیت ہے وہ رسول میں نہیں، کیونکہ رسول کا اطلاق فرشتوں پر بھی ہوا ہے، حالانکہ وہ نبی نہیں، نیز ان دعائیہ کلمات میں نبوت ورسالت کے دونوں اوصاف کا ذکر ہے، جبکہ (رسولك) کہنے سے صرف ایک وصف کا ذکر ہوتا ہے۔ (فتح الباري:466/1) اس حدیث سے قبل از نیند باوضو ہونے کی فضیلت ثابت ہوتی ہے، نیز واضح رہے کہ یہ وضو نماز کا نہیں بلکہ اسے وضوءِ احداث کہتے ہیں۔ حدیث میں ہر قسم کے وضو کو"شطر الإیمان" کا درجہ دیاگیا ہے۔ اس پر یہ سوال ہوتا ہے کہ اگرکوئی شخص پہلے سے باوضو ہوتوکیا وہ بھی سونے کے وقت دوبارہ وضو کرے؟ اس کے متعلق حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ بظاہر حدیث الباب سے تجدید وضو کا مفہوم معلوم ہوتا ہے، یعنی اگرچہ وہ طہارت سے ہو پھر بھی وضو کرے، تاہم احتمال اس امر کا بھی ہے کہ نیند کے وقت امر وضو حالتِ حدث ہی کے ساتھ خاص ہو۔ (فتح الباري:465/1) علامہ عینی کی رائے یہ ہے کہ اگر پہلے سے باوضو ہے تو وہ پہلا وضو ہی کافی ہے، کیونکہ مقصود طہارت کی حالت میں سونا ہے، مبادا اگررات کو موت آجائے تو بے طہارت مرے، نیز اس وضو کی برکت سے اس کو اچھے اور سچے خواب نظرآئیں گے اور وہ شیطانی اثرات سے بھی محفوظ رہے گا۔ (عمدة القاري:698/2) 3۔ دائیں جانب کو ترجیح دینا تمام مواقع میں شریعت کو زیادہ پسند ہے، اسی طرح سوتے وقت دائیں کروٹ پسند کی گئی ہے کہ ایسا کرنے سے دل معلق رہتا ہے۔ نیند کا استغراق نہیں ہوتا، اس صورت میں انسان سہولت اور عجلت سے بیدار ہوسکتا ہے۔ (الموت على الفِطْرَةِ) کا مطلب یہ ہے کہ جس فطری حالت میں انسان گناہوں کے بغیر دنیا میں آیا تھا، اسی حالت پر گناہوں کی آلائش کے بغیر ہی واپس لوٹ جائے گا۔ واللہ أعلم۔ 4 ۔ حافظ ابن حجر ؒ نے لکھاہے کہ حضرت امام بخاری ؒ نے مذکورہ حدیث پر کتاب الوضو کو اس لیے ختم کیا ہے کہ یہ انسان کے زمانہ بیداری کا آخری وضو ہوتا ہے، نیز حدیث کے مطابق کلمات مذکورہ کو بیداری کے آخری کلمات قراردیا ہے، لہذا اس سے امام بخاری ؒ نے ختم کتاب کی طرف اشارہ کردیا۔ (فتح الباري:466/1) امام بخاری ؒ کا طریقہ کار یہ ہے کہ کتاب کے اختتام پر آخرت کی طرف توجہ دلاتے ہیں اور موت کی یاد دہانی کراتے ہیں، چنانچہ یہاں بھی (فَإِنْ مِتَّ) کے الفاظ سے وضاحت کے ساتھ اس کی طرف اشارہ کردیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم کو عبداللہ نے خبر دی، انھوں نے کہا ہمیں سفیان نے منصور کے واسطے سے خبر دی، انھوں نے سعد بن عبیدہ سے، وہ براء بن عازب ؓ سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ جب تم اپنے بستر پر لیٹنے آؤ تو اس طرح وضو کرو جس طرح نماز کے لیے کرتے ہو۔ پھر داہنی کروٹ پر لیٹ کر یوں کہو ’’اے اللہ! میں نے اپنا چہرہ تیری طرف جھکا دیا۔ اپنا معاملہ تیرے ہی سپرد کر دیا۔ میں نے تیرے ثواب کی توقع اور تیرے عذاب کے ڈر سے تجھے ہی پشت پناہ بنا لیا۔ تیرے سوا کہیں پناہ اور نجات کی جگہ نہیں۔ اے اللہ! جو کتاب تو نے نازل کی میں اس پر ایمان لایا۔ جو نبی تو نے بھیجا میں اس پر ایمان لایا۔‘‘ تو اگر اس حالت میں اسی رات مر گیا تو فطرت پر مرے گا اور اس دعا کو سب باتوں کے اخیر میں پڑھ۔ حضرت براء کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے سامنے اس دعا کو دوبارہ پڑھا۔ جب میں آمَنْتُ بِكِتَابِكَ الَّذِي أَنْزَلْتَ پر پہنچا تو میں نے وَرَسُولِكَ (کا لفظ) کہہ دیا۔ آپ نے فرمایا نہیں (یوں کہو) وَنَبِيِّكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ۔‘‘
حدیث حاشیہ:
سیدالمحدثین حضرت امام بخاری ؒ نے کتاب الوضو کی آیت کریمہ: ﴿إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ ﴾(المائدہ:6) سے شروع فرمایا تھا اور اب کتاب الوضو کو سوتے وقت وضوکرنے کی فضیلت پر ختم فرمایا ہے۔ اس ارتباط کے لیے حضرت امام قدس سرہ کی نظر غائر بہت سے امور پر ہے اور اشارہ کرنا ہے کہ ایک مرد مومن کی صبح اور شام، ابتدا وانتہا، بیداری وشب باشی سب کچھ باوضو ذکرالٰہی پر ہونی چاہیے۔ اور ذکر الٰہی بھی عین اسی نہج اسی طور طریقہ پر ہو جو رسول کریم ﷺ کا تعلیم فرمودہ ہے۔ اس سے اگر ذرا بھی ہٹ کر دوسرا راستہ اختیار کیاگیا تووہ عنداللہ مقبول نہ ہوگا۔ جیسا کہ یہاں مذکو رہے کہ رات کو سوتے وقت کی دعائے مذکورہ میں صحابی نے آپ کے تعلیم فرمودہ لفظ کو ذرا بدل دیا تو آپ نے فوراً اسے اس کی کمی وبیشی کو گوارا نہیں فرمایا۔ آیت کریمہ: ﴿يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ﴾(الحجرات:1) کا یہی تقاضا اور دعوت اہل حدیث کا یہی خلاصہ ہے۔ تعجب ہے ان مقلدین جامدین پر جو محض اپنے مزعومہ مسالک کی حمایت کے لیے حضرت سیدالمحدثین امام بخاری ؒ کی درایت وفقاہت پر لب کشائی کرتے ہیں اور آپ کی تخفیف وتنقیص کرکے اپنی دریدہ ذہنی کا ثبوت دیتے ہیں۔ کتاب الوضو ختم کرتے ہوئے ہم پھر ببانگ دہل اعلان کرتے ہیں کہ فن حدیث شریف میں حضرت امام بخاری قدس سرہ امت کے اندر وہ مقام رکھتے ہیں جہاں آپ کا کوئی مثیل ونظیر نہیں ہے۔ آپ کی جامع الصحیح یعنی صحیح بخاری وہ کتاب ہے جسے امت نے بالاتفاق أصح الكتب بعدکتاب اللہ قراردیا ہے۔ ساتھ ہی یہ حقیقت بھی ظاہر ہے کہ ائمہ مجتہدین رحمۃ اللہ علیہم کا بھی امت میں ایک خصوصی مقام ہے ان کی بھی ادنیٰ تحقیر گناہ کبیرہ ہے۔ سب کو اپنے اپنے درجہ پر رکھنا اور سب کی عزت کرنا تقاضائے ایمان ہے۔ ان میں سے کس کو کس پر فضیلت دی جائے اور اس کے لیے دفاتر سیاہ کيے جائیں یہ ایک خبط ہے۔ جو اس چودہویں صدی میں بعض مقلدین جامدین کو ہو گیا ہے۔ اللہ پاک نے پیغمبروں کے متعلق بھی صاف فرمادیا ہے۔ ﴿تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ﴾ (البقرة: 253) پھر ائمہ کرام واولیائے عظام ومحدثین ذوی الاحترام کا توذکر ہی کیا ہے۔ ان کے متعلق یہی اصول مدنظر رکھنا ہوگا۔
ہر گلے را رنگ و بوئے دیگر است
یااللہ! کس منہ سے تیرا شکرادا کروں کہ تونے مجھ ناچیز حقیر فقیر گنہگار شرمسار ادنیٰ ترین بندے کو اپنے حبیب پاک گنبد خضراء کے مکین ﷺ کی اس مقدس بابرکت کتاب کی خدمت کے لیے توفیق عطا فرمائی، یہ محض تیرا فضل وکرم ہے۔
ورنہ من آنم کہ من مولائے کریم!
اس مقدس کتاب کے ترجمہ وتشریحات میں نہ معلوم مجھ سے کس قدر لغزشیں ہوئی ہوں گی۔ کہاں کہاں میرا قلم جادئہ اعتدال سے ہٹ گیا ہوگا۔ الحمد للہ! کہ آج شروع ماہ جمادی الثانی 1387ھ میں بخاری شریف کے پہلے پارہ کے ترجمہ وتشریحات سے فراغت حاصل ہوئی۔ اللہ پاک پوری کتاب کا ترجمہ وتشریحات مکمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین اور قدر دانوں کو اس سے ہدایت اور ازدیادِ ایمان نصیب کرے۔ آمین۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Al-Bara 'bin 'Azib (RA): The Prophet (ﷺ) said to me, "Whenever you go to bed perform ablution like that for the prayer, lie or your right side and say, "Allahumma aslamtu wajhi ilaika, wa fauwadtu amri ilaika, wa alja'tu Zahri ilaika raghbatan wa rahbatan ilaika. La Malja' wa la manja minka illa ilaika. Allahumma amantu bikitabika-l-ladhi anzalta wa bina-biyika-l ladhi arsalta" (O Allah! I surrender to you and entrust all my affairs to you and depend upon you for Your Blessings both with hope and fear of you. There is no fleeing from you, and there is no place of protection and safety except with You O Allah! I believe in Your Book (the Qur'an) which you have revealed and in Your Prophet (ﷺ) (Muhammad) whom you have sent). Then if you die on that very night, you will die with faith (i.e. or the religion of Islam). Let the aforesaid words be your last utterance (before sleep)." I repeated it before the Prophet (ﷺ) and when I reached "Allahumma amantu bikitabika-l-ladhi anzalta (O Allah I believe in Your Book which you have revealed)." I said, "Wa-rasulika (and your Apostle)." The Prophet (ﷺ) said, "No, (but say): 'Wanabiyika-l-ladhi arsalta (Your Prophet (ﷺ) whom you have sent), instead."