تشریح:
1۔ روایت میں ابو جعفر سے مراد حضرت باقر ہیں جن کا نام محمد بن حسین بن علی بن ابی طالبؒ ہے۔ ان کے والد حضرت زین العابدین علی بن حسین ہیں دراصل ان حضرات میں رسول اللہ ﷺ کے غسل کے بارے میں کچھ اختلاف ہوا تو انھوں نے حضرت جابر ؒ کی خدمت میں حاضر ہو کر اس کی تحقیق کرنی چاہی سوال کرنے والے صرف حضرت باقر ہیں چونکہ تحقیق کی طلب سب حضرات کو تھی اس لیے سوال کی نسبت سب کی طرف کردی گئی ہے۔ جب حضرت جابر ؓ نے بتایا کہ غسل کے لیے ایک صاع کافی ہے تو مجلس میں موجود ایک شخص نے کہا کہ اتنی سی مقدار غسل کے لیے ناکافی ہے۔ یہ بات کہنے والے حضرت محمد بن حنفیہ کے صاحبزادے حضرت حسن ہیں، چونکہ ان کا انداز مناسب نہیں تھا، اس لیے حضرت جابر ؓ نے تنبیہ کے انداز میں فرمایا کہ تمھیں یہ مقدار کافی نہ ہوگی، شاید تمھارے سر میں بال زیادہ ہیں یا تم زیادہ احتیاط سے کام لیتے ہو۔ لیکن رسول اللہ ﷺ کے لیے تو یہ مقدار کافی تھی، حالانکہ آپ کے سر مبارک پر بال بھی تم سے زیادہ تھے۔ پھر آپ ہر معاملے میں محتاط بھی بہت تھے، اس لیے کافی نہ ہونے کی وجہ صرف یہ ہو سکتی ہے کہ تم پانی کے استعمال میں اسراف سے کام لیتے ہو۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حدیث کے خلاف جھگڑنے والے کو سختی سے سمجھانے میں کوئی حرج نہیں۔ (فتح الباري:475/1)
2۔ اس روایت کے مطابق حضرت ابو جعفر باقر نے حضرت جابر ؓ سے غسل کے لیے پانی کی مقدار کے متعلق سوال کیا جس کا حضرت جابر ؓ نے جواب دے دیا کہ ایک صاع کافی ہے۔ حسن بن محمد بن حنفیہ نے کہا کہ مجھے کافی نہ ہو گا تو اس کا بھی جواب دیا۔ آگے حسن بن محمد بن حنفیہ کا غسل کی کیفیت کے بارے میں سوال آرہا ہے کہ جنابت کے غسل کا کیا طریقہ ہے؟ حضرت جابر ؓ نے جواب دیا کہ رسول اللہ ﷺ تین چلو پانی لیتے اور انھیں اپنے سر پر بہاتے تھے، پھر اپنے تمام بدن پر پانی ڈالتے اس پر حسن بن محمد نے کہا میں تو بہت بالوں والا ہوں۔ حضرت جابر ؓ نے جواب دیا کہ نبی ﷺ کے بال تم سے زیادہ تھے۔ (صحیح البخاری، الغسل، حدیث:256)