تشریح:
امام بخاری ؒ کے بیان کردہ مسئلے میں بہت اختلاف ہے اور اس اختلاف کی بنیاد یہ ہے کہ آیا غلام کی آزادی قابل تقسیم ہے یا نہیں؟ امام بخاری ؒ کا موقف یہ ہے کہ آزادی کا تجزیہ ہو سکتا ہے۔ جب غلامی کا دور تھا تو کئی آدمی مل کر ایک غلام خرید لیتے تھے اب اگر کوئی اپنا حصہ آزاد کرنا چاہتا تو اس کے متعلق ضابطہ یہ تھا کہ پہلے غلام کی صحیح اور عادلانہ قیمت تجویز کی جائے پھر اپنا حصہ آزاد کرنے والا اگر مال دار ہے تو باقی شرکاء کو ان کے حصص کے مطابق قیمت ادا کرے، اس صورت میں وہ غلام مکمل طور پر آزاد ہو گا۔ اگر وہ شخص مال دار نہیں ہے تو پھر صرف اسی کا حصہ آزاد ہو گا، مکمل طور پر آزاد نہیں ہو گا۔ اس طرح اس کی آزادی تقسیم ہو سکتی ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ آزادی تقسیم نہیں ہو سکتی بلکہ ایک حصہ آزاد کرنے سے وہ مکمل آزاد ہو جائے گا۔ اگر وہ صاحب حیثیت ہے تو اسے باقی حصوں کی قیمت کا تاوان دینا ہو گا۔ اگر صاحب حیثیت نہیں ہے تو غلام کو محنت مزدوری پر مجبور کیا جائے گا۔ اس پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اپنا حصہ آزاد کرنے والا تنگ دست ہو اور غلام بھی محنت مزدوری کے قابل نہ ہو تو پھر کیا کیا جائے گا؟ بہرحال ہمارے رجحان کے مطابق آزادی قابل تجزیہ ہے اور غلام کا کچھ حصہ آزاد اور کچھ حصہ غلام ہو سکتا ہے، اس میں کوئی اشکال نہیں۔ امام بخاری ؒ نے آئندہ باب میں اس کا مزید حل پیش فرمایا ہے۔