قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ العِتْقِ (بَابُ مَنْ مَلَكَ مِنَ العَرَبِ رَقِيقًا، فَوَهَبَ وَبَاعَ وَجَامَعَ وَفَدَى وَسَبَى الذُّرِّيَّةَ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَقَوْلِهِ تَعَالَى: {ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا عَبْدًا مَمْلُوكًا لاَ يَقْدِرُ عَلَى شَيْءٍ، وَمَنْ رَزَقْنَاهُ مِنَّا رِزْقًا حَسَنًا فَهُوَ يُنْفِقُ مِنْهُ سِرًّا وَجَهْرًا، هَلْ يَسْتَوُونَ الحَمْدُ لِلَّهِ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لاَ يَعْلَمُونَ} [النحل: 75

2539.01. حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، ذَكَرَ عُرْوَةُ أَنَّ مَرْوَانَ، وَالمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ، أَخْبَرَاهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَامَ حِينَ جَاءَهُ وَفْدُ هَوَازِنَ، فَسَأَلُوهُ أَنْ يَرُدَّ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ وَسَبْيَهُمْ، فَقَالَ: إِنَّ مَعِي مَنْ تَرَوْنَ، وَأَحَبُّ الحَدِيثِ إِلَيَّ أَصْدَقُهُ، فَاخْتَارُوا إِحْدَى الطَّائِفَتَيْنِ: إِمَّا المَالَ وَإِمَّا السَّبْيَ، وَقَدْ كُنْتُ اسْتَأْنَيْتُ بِهِمْ ، وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْتَظَرَهُمْ بِضْعَ عَشْرَةَ لَيْلَةً حِينَ قَفَلَ مِنَ الطَّائِفِ، فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَيْرُ رَادٍّ إِلَيْهِمْ إِلَّا إِحْدَى الطَّائِفَتَيْنِ، قَالُوا: فَإِنَّا نَخْتَارُ سَبْيَنَا، فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي النَّاسِ، فَأَثْنَى عَلَى اللَّهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، ثُمَّ قَالَ: «أَمَّا بَعْدُ، فَإِنَّ إِخْوَانَكُمْ قَدْ جَاءُونَا تَائِبِينَ، وَإِنِّي رَأَيْتُ أَنْ أَرُدَّ إِلَيْهِمْ سَبْيَهُمْ، فَمَنْ أَحَبَّ مِنْكُمْ أَنْ يُطَيِّبَ ذَلِكَ فَلْيَفْعَلْ، وَمَنْ أَحَبَّ أَنْ يَكُونَ عَلَى حَظِّهِ حَتَّى نُعْطِيَهُ إِيَّاهُ مِنْ أَوَّلِ مَا يُفِيءُ اللَّهُ عَلَيْنَا فَلْيَفْعَلْ»، فَقَالَ النَّاسُ: طَيَّبْنَا لَكَ ذَلِكَ، قَالَ: «إِنَّا لاَ نَدْرِي مَنْ أَذِنَ مِنْكُمْ مِمَّنْ لَمْ يَأْذَنْ، فَارْجِعُوا حَتَّى يَرْفَعَ إِلَيْنَا عُرَفَاؤُكُمْ أَمْرَكُمْ» فَرَجَعَ النَّاسُ، فَكَلَّمَهُمْ عُرَفَاؤُهُمْ، ثُمَّ رَجَعُوا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرُوهُ: أَنَّهُمْ طَيَّبُوا وَأَذِنُوا، فَهَذَا الَّذِي بَلَغَنَا عَنْ سَبْيِ هَوَازِنَ، وَقَالَ أَنَسٌ: قَالَ عَبَّاسٌ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَادَيْتُ نَفْسِي، وَفَادَيْتُ عَقِيلًا

مترجم:

ترجمۃ الباب:

اور اللہ تعالیٰ نے سورۃ نحل میں فرمایا ” اللہ تعالیٰ نے ایک مملوک غلام کی مثال بیان کی ہے جو بے بس ہو اور ایک وہ شخص جسے ہم نے اپنی طرف سے روزی دی ہو، وہ اس میں پوشیدہ اور ظاہرہ خرچ بھی کرتا ہو کیا یہ دونوں شخص برابر ہیں ( ہرگز نہیں ) تمام تعریف اللہ کے لیے ہے۔ مگر اکثر لوگ جانتے نہیں۔ کہ حمد کی حقیقت کیا ہے اور غیراللہ جو اپنے لیے حمد کا دعوے دار ہو وہ کس قدر احمق اور بے عمل ہے۔

2539.01.

حضرت مروان اور حضرت مسور بن مخرمہ  ؓ سے روایت ہے، انھوں نے بتایا کہ جب نبی کریم ﷺ کے پاس قبیلہ ہوازن کا وفدآیا تو آپ کھڑے ہوئے۔ انھوں نے آپ سے عرض کیاکہ آپ ان کے قیدی اور مال واپس کردیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’میرے ساتھ اور لوگ بھی ہیں جنھیں تم دیکھ رہے ہو، نیز میرے نزدیک اچھی بات وہ ہےجو سچی ہو، اب تم لوگ دوچیزوں میں سے ایک کو اختیار کرسکتے ہو: مال لے لو یا قیدی چھڑا لو۔ میں نے تو ان (قیدیوں کی تقسیم) میں تاخیر کی تھی (اور تمہارا انتظار کرتا رہا)۔‘‘ نبی کریم ﷺ نے طائف سے واپسی کے بعد دس دن سے زیادہ ان کا انتظار کیا۔ جب اہل وفد کو یقین ہوگیا کہ نبی کریم ﷺ انھیں دوچیزوں میں سے صرف ایک چیز واپس کریں گے تو انھوں نے کہا: ہم اپنے قیدی اختیار کرتے ہیں، چنانچہ نبی کریم ﷺ لوگوں میں کھڑ ے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے شایان شان حمد وثنا کی، پھر فرمایا: ’’أمابعد! تمہارے بھائی ہمارے پاس تائب ہوکر آئےہیں اور میری ر ائے یہ ہے کہ میں انھیں ان کے قیدی واپس کردوں۔ جو کوئی تم میں سے خوشی کے ساتھ یہ کرنا چاہے وہ کرے اور جو کوئی اپنا حصہ لینا پسند کرتا ہےتو ہم سب سے پہلے جو مال غنیمت آئےگا اس میں سے اس کا حصہ اسے دیں گے تو وہ ایسا کرسکتا ہے۔‘‘ لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول ﷺ !ہم آپ کی خاطر یہ کام بخوشی کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’ہم نہیں جانتے کہ تم میں سے کس نے خوشی سے اجازت دی ہے اور کس نے اجازت نہیں دی، لہذاتم سب واپس چلے جاؤ حتیٰ کہ ہمارے پاس تمہارے نمائندے، تمہاری رائے کااظہار کریں۔‘‘ چنانچہ وہ واپس چلے گئے اور ان کے نمائندگان نے ان سے بات چیت کی۔ پھر وہ نبی کریم ﷺ کے پاس آئے اور آپ کو بتایا کہ انھوں نے خوش دلی سے اجازت دے دی ہے۔ یہ واقعہ ہمیں قبیلہ ہوازن کے قیدیوں کے متعلق معلوم ہواہے۔ حضرت انس  ؓ نے کہا: حضرت عباس  ؓ نے نبی کریم ﷺ سے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ !میں نے اپنا اور عقیل کا فدیہ دیا تھا۔