Sahi-Bukhari:
Bathing (Ghusl)
(Chapter: The performance of ablution before taking a bath)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
254.
حضرت میمونہ ؓ زوجہ نبی ﷺ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے (غسل کے وقت) اس طرح وضو فرمایا جس طرح نماز کے لیے کیا جاتا ہے، لیکن پاؤں نہیں دھوئے، البتہ اپنی شرمگاہ کو اور جسم پر لگی ہوئی آلائش کو دھویا۔ پھر اپنے اوپر پانی بہایا، اس کے بعد جائے غسل سے الگ ہو کر اپنے دونوں پاؤں دھوئے۔ یہ آپ کا غسل جنابت تھا۔
تشریح:
1۔ غسل چونکہ جامع طہارت ہے، اس میں طہارت استنجا بھی ہے، طہارت وضو بھی اور طہارت غسل بھی، جب یہ تمام طہارتوں کو شامل ہے تو پھر اس کی ترتیب کیا ہونی چاہیے؟ امام بخاری ؒ کا مقصد غسل سے قبل وضو کی مشروعیت کو بیان کرنا ہے کہ رسول اللہ ﷺ غسل کی ابتدا وضو سے فرماتے تھے، بلکہ حضرت عائشہ ؓ کی ایک روایت میں صراحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے غسل کی ابتدا استنجا سے کرتے تھے۔ (صحیح مسلم، الحیض، حدیث:718 (316)) حضرت میمونہ ؓ کی ایک روایت میں یہ بھی وضاحت ہے کہ استنجا کے بعد اپنے ہاتھ کو زمین پر رگڑتے اور اسے خوب صاف کرتے۔ (صحیح مسلم، الحیض، حدیث:722 (317)) حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں: کسی حدیث میں (غسل جنابت کرتے وقت) سر کے مسح کا ذکر نہیں ہے۔ (فتح الباری:472/1) حضرت عائشہ ؓ حضرت ابن عمر ؓ رسول اللہ ﷺ کے غسل جنابت میں وضو کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آپ نے سر کا مسح نہیں کیا بلکہ اس پر پانی ڈالا۔ (سنن النسائي، الغسل والتیمم، حدیث:422) امام نسائی نے اس حدیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے۔’’جنابت کے وضو میں سر کے مسح کو ترک کرنا‘‘ حضرت عائشہ ؓ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ وضو کرتے وقت پاؤں بھی دھو لیے جائیں جب کہ حضرت میمونہ ؓ کی روایت میں وضاحت ہے کہ پاؤں غسل سے فراغت کے بعد دھوئے جائیں، ان روایات میں تطبیق کی صورت یہ ہے کہ اگر نہانے کی جگہ صاف ستھری ہے اور وہاں پانی نہیں ٹھہرتا تو پاؤں وضو کرتے وقت دھولیے جائیں۔ اگر پانی وہاں جمع ہو جاتا ہے تو غسل سے فراغت کے بعد انھیں دھو لیا جائے۔ علامہ قرطبی لکھتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اپنے پاؤں غسل سے فراغت کے بعد اس لیے دھوتے تھے تاکہ غسل کا افتتاح اور اختتام اعضائے وضو سے ہو۔ (فتح الباري:470/1) بعض حضرات نے ان دونوں روایات کو بایں طور بھی جمع کیا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کی حدیث پر عمل کرتے ہوئے پاؤں پہلے بھی دھولیے جائیں اور حضرت میمونہ ؓ کی روایت کے پیش نظر غسل سے فراغت کے بعد بھی دھولیے جائیں تاکہ دونوں حدیثوں پر عمل ہو جائے۔ 3۔ ان دونوں روایات کے پیش نظر غسل کے لیے ضروری ہے کہ پہلے پردے کا اہتمام کیا جائے۔ پھر دونوں ہاتھ دھوئے جائیں۔ بعد ازاں دائیں ہاتھ سے پانی ڈال کر بائیں ہاتھ سے شرمگاہ کو دھویا جائے اور اس پر لگی ہوئی آلائش کو دور کیا جائے۔ پھر وضو کا اہتمام ہو، بعد میں بالوں کی جڑوں تک پانی پہنچا کر انھیں اچھی طرح ترکیا جائے۔ پھر تمام بدن پر پانی بہا لیا جائے، اگر غسل خانہ صاف ستھرا ہواور پانی جمع نہ ہوتا ہو تو وضو کرتے وقت پاؤں بھی دھوئے جائیں بصورت دیگر غسل سے فراغت کے بعد اس جگہ سے الگ ہو کر پاؤں دھوئے جائیں۔ اس کی تفصیل آئندہ احادیث میں بیان ہو گی۔ 4۔ شارحین نے امام بخاری ؒ کے قائم کردہ عنوان کے تین مفہوم بیان کیے ہیں۔ * غسل کا وضو غسل سے پہلے ہے بعد میں نہیں جب غسل کر لیا اور طہارت حاصل ہو گئی تو بلا ضرورت غسل کے بعد وضو کرنا خلاف سنت ہے۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ غسل کے بعد وضو نہ کرتے تھے۔ (سنن النسائي، الغسل، حدیث:430) * اس سے یہ ثابت کرنا مقصود ہے کہ غسل سے پہلے وضو کرنا غسل کا ایک حصہ ہے، اس کی مستقل حیثیت نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو اعضاء وضو کرتے وقت دھولیے ہیں انھیں دوران غسل میں دوبارہ دھونے کی ضرورت نہیں۔ اس کے متعلق امام بخاری ؒ آگے ایک مستقل عنوان (رقم16) لا رہے ہیں۔ * غسل سے پہلے وضو کی کیفیت بیان کرنا مقصود ہے، یعنی اس کا طریقہ وضو جیسا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اگر جائے غسل صاف ہے اور وہاں پانی کھڑا نہیں ہوتا تو پاؤں غسل سے پہلے وضو کے ساتھ ہی دھو لیے جائیں، بصورت دیگر فراغت کے بعد وہاں سے ہٹ کر دھونا چاہیے۔ 5۔ حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ حدیث میمونہ ؓ میں تقدیم و تاخیر ہو گئی ہے، کیونکہ شرمگاہ کا دھونا وضو سے پہلے ہے، جیسا کہ امام بخاری ؒ نے آئندہ عبد اللہ بن مبارک ؒ کے طریق میں بیان کیا ہے، وہاں پہلے ہاتھوں کا دھونا پھر استنجا کرنا، پھر زمین پر رگڑ کر انھیں صاف کرنا، اس کے بعد وضو کرنا، پاؤں دھونے کے علاوہ پھر تمام جسم پر پانی بہانے کا ذکر ہے۔ (صحیح البخاری، الغسل، حدیث :281) اورغسل جنابت کا صحیح طریقہ یہی ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
251
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
249
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
249
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
249
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے طہارت صغریٰ(وضو)کا بیان ختم کر کے طہارت کبری (غسل)کا ذکر شروع فرمایا طہارت صغری کو اس لیے مقدم کیا ہے کہ طہارت کبریٰ کے مقابلے میں اس کی ضرورت زیادہ پیش آتی ہے واضح رہے کہ موجبات غسل کئی چیزیں ہیں مثلاًجنابت حیض نفاس اسلام، احرام ،تغسیل، میت ،نماز جمعہ اور نماز عیدین وغیرہ مؤخر الذکر چار تو استحباب کے درجے میں ہیں جبکہ پہلی چار فرض کی حیثیت رکھتی ہیں ان میں سے حیض و نفاس صرف عورتوں کے ساتھ خاص ہیں اور غسل اسلام زندگی میں صرف ایک مرتبہ کیا جاتا ہے اس بنا پر وہ کثیر الوقوع نہیں چونکہ غسل جنابت میں مردوعورت کو یکساں طور پر واسطہ پڑتا ہے اس بنا پر یہ کثیر الوقوع ہے۔ اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے پہلے اس کے احکام ومسائل بیان فرمائے ہیں۔ اس کے متعلق آپ نے45 چھوٹے بڑے عنادین قائم کیے ہیں، پھر ان کی تفصیل و تشریح کے لیے 75احادیث بیان کی ہیں۔ ان احادیث کی روشنی میں غسل جنابت کا وجوب علت وجوب شرائط وواجبات اور احکام وآداب کو ثابت کیا ہے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے آغاز میں دو قرآنی آیات کا حوالہ دے کر اس حقیقت سے آگاہ کیا ہے کہ غسل جنابت کے سلسلے میں ان آیات کو بنیاد اور اصل کی حیثیت حاصل ہے اور ان کے بعد آنے والی احادیث انھی آیات کی تبیین و تفصیل ہیں۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے قائم کردہ تراجم ابواب سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ احکام غسل جنابت سے تعلق رکھتے ہیں۔مثلاً غسل سے پہلے وضو کرنا غسل سے پہلے خوشبو کا استعمال جس کے اثرات غسل کے بعد باقی رہیں دوران غسل میں صابن وغیرہ کا استعمال غسل سے پہلے اعضائے مخصوصہ سے آلائش دور کرنے کے بعد ہاتھوں کو مٹی سے صاف کرنا، ہاتھوں کو دھونے سے پہلے برتن میں ڈالنا دوران غسل میں بالوں کا خلال کرنا، متعدد مرتبہ مباشرت کرنے کے بعد آخر میں ایک ہی غسل کر لینا غسل میں عدد کا لحاظ رکھا جائے یا صرف تمام بدن پر پانی بہا دیا جائے اور غسل کے لیے کم ازکم پانی کی مقدار وغیرہ اور کچھ احکام جنبی انسان کے بارے میں ہیں مثلاً وہ بحالت جنابت سو سکتا ہے یا نہیں ؟ اس کا بازار جانا یا گھر رہنا شرعاً کیسا ہے؟ اگر مسجد میں یہ حالت (احتلام وغیرہ )پیش آجائے تو کیا کرے؟اس کے پسینے کا کیا حکم ہے؟ بیوی خاوند کا اکٹھے غسل کرنا شرعاً کیا حیثیت رکھتا ہے؟ خلوت و جلوت میں غسل کرنے کے لوازمات کیا ہیں؟ عورت کو احتلام کا عارضہ لاحق ہو جائے تو وہ کیا کرے؟ اور خروج مذی کا حکم وغیرہ آخر میں مباشرت کے دوران میں اندام نہانی سے برآمد ہونے والی رطوبت کا شرعی حکم بیان کیا ہے۔ اس کے علاوہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بے شمار حقائق و دقائق سے پردہ اٹھایا ہے جو پڑھتے وقت غور و فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ دوران مطالعہ میں ہماری پیش کردہ گزارشات کو مدنظر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے علم کی گہرائی اور گیرائی کا عملی تجربہ ہو ۔(وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ وَهُوَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ إِلَىٰ سَوَاءَ السَّبِيلِ)
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اور اگر تم بحالتِ جنات ہو تو غسل کر لو۔ اور اگر تم بیمار ہو یا سفر کی حالت میں ہو یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت سے (فارغ ہو کر) آیا ہو یا تم نے عورتوں سے اختلاف کیا ہو اور تمہیں پانی نہ ملے تو تم پاک مٹی سے تیمم کرلو۔ اسے اپنے چہروں اور ہاتھوں پر ملو۔ اللہ تم پر کسی قسم کی تنگی نہیں ڈالنا چاہتا بلکہ اس کا ارادہ تمہیں پاک کرنے اور تمہیں بھرپور نعمت دینے کا ہے تاکہ تم شکر ادا کرتے رہو۔" نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اے ایمان والو! جب تم بحالت نشہ ہو تو نماز کے قریب بھی نہ جاؤ تا آنکہ تم اپنی بات کو سمجھنے لگو اور بحالت جنابت بھی، جب تک تم غسل نہ کر لو، ہاں اگر تم راہ چلتے گزر جانے والے ہو تو اور بات ہے۔ اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت سے آیا ہو یا تم نے عورتوں سے مباشرت کی ہو اور تمہیں پانی نہ ملے تو پاک مٹی کا قصد کرو اور اسے اپنے منہ اور ہاتھوں پر مل لو۔ بےشک اللہ تعالیٰ بہت زیادہ معاف کرنے والا بے حد بخشنے والا ہے۔"
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان ہر دو آیات سے غسل جنابت کے واجب ہونے پر استدلال کیا ہے پہلی آیت میں صیغہ مبالغہ (اِطَّهَّرُوا)استعمال کیا گیا ہے اس میں تنبیہ ہے کہ بحالت جنابت جہاں تک اثر جنابت پہنچ چکا ہو وہاں وہاں کوشش کرکے پانی پہنچا کر اس کے اثرات کو زائل کرنا ضروری ہے چونکہ غسل جنابت کا تعلق پورے جسم سے ہے اس سلسلے میں کسی عضو کا ذکر نہیں جیسا کہ وضو میں اعضائے اربعہ کا ذکر تھا اس لیے غسل جنابت میں معمولی طہارت کافی نہ ہو گی بلکہ کان ناک اور حلق کے اندر پانی پہنچانا ضروری ہے ہاں !جس عضو میں پانی پہنچانے سے کسی نقصان کا اندیشہ ہوگا وہاں معافی ہوگی مثلاً آنکھوں کے اندر کا معاملہ ہے۔ اگر وہاں پانی پہنچانے کی کوشش کریں گے تو بصارت کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے اس لیے اثرات جنابت دور کرنے کے لیے آنکھوں کے اندر پانی پہنچانے کا مکلف قرارنہیں دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے سورہ مائدہ والی آیت کو پہلے بیان کیا ہے کیونکہ اس میں مبالغے کا صیغہ آیا ہے حالانکہ ترتیب کے لحاظ سے یہ سورت سورۃ النشاء کے بعد ہے حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ایک اور نکتہ بیان کیا ہے۔ فرماتے ہیں: امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے سورہ مائدہ کی آیت کو سورہ نساء کی آیت پر اس لیے مقدم کیا ہے کہ سورہ مائدہ کی آیت میں (تَغْتَسِلُوا) کا لفظ ہے جس میں اجمال اور ابہام تھا اور سورہ نساء کی آیت میں(اِطَّهَّرُوا) کا لفظ ہے اس میں غسل کی تصریح آگئی گویا دوسری آیت پہلی آیت کے لیے تفسیر کاکام دیتی ہے پھر لکھتے ہیں کہ (اِغْتَسِلُوا)سے مراد لینے پر دلیل یہ ہے کہ یہی لفظ حائضہ کے سلسلے میں بھی وارد ہوا ہے وہاں (تَطَهَّرْنَ)سے بالاتفاق (اغتسلن) مراد لیا گیا ہے۔( فتح الباری1/468۔) لیکن علامہ عینی حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کی اس رائے سے متفق نہیں ہیں فرماتے ہیں: لفظ (اِطَّهَّرُوا) میں کوئی اجمال نہیں نہ لغوی اور نہ اصطلاحی کیونکہ اس کے معنی ہر لحاظ سے غسل بدن کے ہیں۔( عمدۃ القاری3/4۔)علامہ کرمانی لکھتے ہیں کہ ان آیات سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود یہ ہے کہ غسل جنابت کا وجوب قرآن مجید سے مستفاد ہے۔( شرح الکرمانی1/111۔)
حضرت میمونہ ؓ زوجہ نبی ﷺ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے (غسل کے وقت) اس طرح وضو فرمایا جس طرح نماز کے لیے کیا جاتا ہے، لیکن پاؤں نہیں دھوئے، البتہ اپنی شرمگاہ کو اور جسم پر لگی ہوئی آلائش کو دھویا۔ پھر اپنے اوپر پانی بہایا، اس کے بعد جائے غسل سے الگ ہو کر اپنے دونوں پاؤں دھوئے۔ یہ آپ کا غسل جنابت تھا۔
حدیث حاشیہ:
1۔ غسل چونکہ جامع طہارت ہے، اس میں طہارت استنجا بھی ہے، طہارت وضو بھی اور طہارت غسل بھی، جب یہ تمام طہارتوں کو شامل ہے تو پھر اس کی ترتیب کیا ہونی چاہیے؟ امام بخاری ؒ کا مقصد غسل سے قبل وضو کی مشروعیت کو بیان کرنا ہے کہ رسول اللہ ﷺ غسل کی ابتدا وضو سے فرماتے تھے، بلکہ حضرت عائشہ ؓ کی ایک روایت میں صراحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے غسل کی ابتدا استنجا سے کرتے تھے۔ (صحیح مسلم، الحیض، حدیث:718 (316)) حضرت میمونہ ؓ کی ایک روایت میں یہ بھی وضاحت ہے کہ استنجا کے بعد اپنے ہاتھ کو زمین پر رگڑتے اور اسے خوب صاف کرتے۔ (صحیح مسلم، الحیض، حدیث:722 (317)) حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں: کسی حدیث میں (غسل جنابت کرتے وقت) سر کے مسح کا ذکر نہیں ہے۔ (فتح الباری:472/1) حضرت عائشہ ؓ حضرت ابن عمر ؓ رسول اللہ ﷺ کے غسل جنابت میں وضو کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آپ نے سر کا مسح نہیں کیا بلکہ اس پر پانی ڈالا۔ (سنن النسائي، الغسل والتیمم، حدیث:422) امام نسائی نے اس حدیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے۔’’جنابت کے وضو میں سر کے مسح کو ترک کرنا‘‘ حضرت عائشہ ؓ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ وضو کرتے وقت پاؤں بھی دھو لیے جائیں جب کہ حضرت میمونہ ؓ کی روایت میں وضاحت ہے کہ پاؤں غسل سے فراغت کے بعد دھوئے جائیں، ان روایات میں تطبیق کی صورت یہ ہے کہ اگر نہانے کی جگہ صاف ستھری ہے اور وہاں پانی نہیں ٹھہرتا تو پاؤں وضو کرتے وقت دھولیے جائیں۔ اگر پانی وہاں جمع ہو جاتا ہے تو غسل سے فراغت کے بعد انھیں دھو لیا جائے۔ علامہ قرطبی لکھتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اپنے پاؤں غسل سے فراغت کے بعد اس لیے دھوتے تھے تاکہ غسل کا افتتاح اور اختتام اعضائے وضو سے ہو۔ (فتح الباري:470/1) بعض حضرات نے ان دونوں روایات کو بایں طور بھی جمع کیا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کی حدیث پر عمل کرتے ہوئے پاؤں پہلے بھی دھولیے جائیں اور حضرت میمونہ ؓ کی روایت کے پیش نظر غسل سے فراغت کے بعد بھی دھولیے جائیں تاکہ دونوں حدیثوں پر عمل ہو جائے۔ 3۔ ان دونوں روایات کے پیش نظر غسل کے لیے ضروری ہے کہ پہلے پردے کا اہتمام کیا جائے۔ پھر دونوں ہاتھ دھوئے جائیں۔ بعد ازاں دائیں ہاتھ سے پانی ڈال کر بائیں ہاتھ سے شرمگاہ کو دھویا جائے اور اس پر لگی ہوئی آلائش کو دور کیا جائے۔ پھر وضو کا اہتمام ہو، بعد میں بالوں کی جڑوں تک پانی پہنچا کر انھیں اچھی طرح ترکیا جائے۔ پھر تمام بدن پر پانی بہا لیا جائے، اگر غسل خانہ صاف ستھرا ہواور پانی جمع نہ ہوتا ہو تو وضو کرتے وقت پاؤں بھی دھوئے جائیں بصورت دیگر غسل سے فراغت کے بعد اس جگہ سے الگ ہو کر پاؤں دھوئے جائیں۔ اس کی تفصیل آئندہ احادیث میں بیان ہو گی۔ 4۔ شارحین نے امام بخاری ؒ کے قائم کردہ عنوان کے تین مفہوم بیان کیے ہیں۔ * غسل کا وضو غسل سے پہلے ہے بعد میں نہیں جب غسل کر لیا اور طہارت حاصل ہو گئی تو بلا ضرورت غسل کے بعد وضو کرنا خلاف سنت ہے۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ غسل کے بعد وضو نہ کرتے تھے۔ (سنن النسائي، الغسل، حدیث:430) * اس سے یہ ثابت کرنا مقصود ہے کہ غسل سے پہلے وضو کرنا غسل کا ایک حصہ ہے، اس کی مستقل حیثیت نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو اعضاء وضو کرتے وقت دھولیے ہیں انھیں دوران غسل میں دوبارہ دھونے کی ضرورت نہیں۔ اس کے متعلق امام بخاری ؒ آگے ایک مستقل عنوان (رقم16) لا رہے ہیں۔ * غسل سے پہلے وضو کی کیفیت بیان کرنا مقصود ہے، یعنی اس کا طریقہ وضو جیسا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اگر جائے غسل صاف ہے اور وہاں پانی کھڑا نہیں ہوتا تو پاؤں غسل سے پہلے وضو کے ساتھ ہی دھو لیے جائیں، بصورت دیگر فراغت کے بعد وہاں سے ہٹ کر دھونا چاہیے۔ 5۔ حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ حدیث میمونہ ؓ میں تقدیم و تاخیر ہو گئی ہے، کیونکہ شرمگاہ کا دھونا وضو سے پہلے ہے، جیسا کہ امام بخاری ؒ نے آئندہ عبد اللہ بن مبارک ؒ کے طریق میں بیان کیا ہے، وہاں پہلے ہاتھوں کا دھونا پھر استنجا کرنا، پھر زمین پر رگڑ کر انھیں صاف کرنا، اس کے بعد وضو کرنا، پاؤں دھونے کے علاوہ پھر تمام جسم پر پانی بہانے کا ذکر ہے۔ (صحیح البخاری، الغسل، حدیث :281) اورغسل جنابت کا صحیح طریقہ یہی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن یوسف نے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا کہ ہم سے سفیان نے بیان کیا اعمش سے روایت کر کے، وہ سالم ابن ابی الجعد سے، وہ کریب سے، وہ ابن عباس ؓ سے، وہ میمونہ نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ سے روایت کرتے ہیں، انھوں نے بتلایا کہ نبی کریم ﷺ نے نماز کے وضو کی طرح ایک مرتبہ وضو کیا، البتہ پاؤں نہیں دھوئے۔ پھر اپنی شرمگاہ کو دھویا اور جہاں کہیں بھی نجاست لگ گئی تھی، اس کو دھویا۔ پھر اپنے اوپر پانی بہا لیا۔ پھر پہلی جگہ سے ہٹ کر اپنے دونوں پاؤں کو دھویا۔ آپ کا غسل جنابت اسی طرح ہوا کرتا تھا۔
حدیث حاشیہ:
حافظ ابن حجررحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس روایت میں تقدیم تاخیر ہوگئی ہے۔ شرمگاہ کو وضو سے پہلے دھونا چاہئیے جیسا کہ دوسری روایات میں ہے۔ پھر وضو کرنا مگرپیرنہ دھونا پھرغسل کرنا پھر باہر نکل کر پیردھونا یہی مسنون طریقہ غسل ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Maimuna (RA): (the wife of the Prophet) Allah's Apostle (ﷺ) performed ablution like that for the prayer but did not wash his feet. He washed off the discharge from his private parts and then poured water over his body. He withdrew his feet from that place (the place where he took the bath) and then washed them. And that was his way of taking the bath of Janaba.