قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الهِبَةِ وَفَضْلِهَا وَالتَّحْرِيضِ عَلَيْهَا (بَابُ مَنْ أَهْدَى إِلَى صَاحِبِهِ وَتَحَرَّى بَعْضَ نِسَائِهِ دُونَ بَعْضٍ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

2581. حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَخِي، عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: أَنَّ نِسَاءَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كُنَّ حِزْبَيْنِ، فَحِزْبٌ فِيهِ عَائِشَةُ وَحَفْصَةُ وَصَفِيَّةُ وَسَوْدَةُ، وَالحِزْبُ الآخَرُ أُمُّ سَلَمَةَ وَسَائِرُ نِسَاءِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ المُسْلِمُونَ قَدْ عَلِمُوا حُبَّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَائِشَةَ، فَإِذَا كَانَتْ عِنْدَ أَحَدِهِمْ هَدِيَّةٌ يُرِيدُ أَنْ يُهْدِيَهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَخَّرَهَا حَتَّى إِذَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِ عَائِشَةَ، بَعَثَ صَاحِبُ الهَدِيَّةِ بِهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِ عَائِشَةَ، فَكَلَّمَ حِزْبُ أُمِّ سَلَمَةَ فَقُلْنَ لَهَا: كَلِّمِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُكَلِّمُ النَّاسَ، فَيَقُولُ: مَنْ أَرَادَ أَنْ يُهْدِيَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَدِيَّةً، فَلْيُهْدِهِ إِلَيْهِ حَيْثُ كَانَ مِنْ بُيُوتِ نِسَائِهِ، فَكَلَّمَتْهُ أُمُّ سَلَمَةَ بِمَا قُلْنَ، فَلَمْ يَقُلْ لَهَا شَيْئًا، فَسَأَلْنَهَا، فَقَالَتْ: مَا قَالَ لِي شَيْئًا، فَقُلْنَ لَهَا، فَكَلِّمِيهِ قَالَتْ: فَكَلَّمَتْهُ حِينَ دَارَ إِلَيْهَا أَيْضًا، فَلَمْ يَقُلْ لَهَا شَيْئًا، فَسَأَلْنَهَا، فَقَالَتْ: مَا قَالَ لِي شَيْئًا، فَقُلْنَ لَهَا: كَلِّمِيهِ حَتَّى يُكَلِّمَكِ، فَدَارَ إِلَيْهَا فَكَلَّمَتْهُ، فَقَالَ لَهَا: «لاَ تُؤْذِينِي فِي عَائِشَةَ فَإِنَّ الوَحْيَ لَمْ يَأْتِنِي وَأَنَا فِي ثَوْبِ امْرَأَةٍ، إِلَّا عَائِشَةَ»، قَالَتْ: فَقَالَتْ: أَتُوبُ إِلَى اللَّهِ مِنْ أَذَاكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ثُمَّ إِنَّهُنَّ دَعَوْنَ فَاطِمَةَ بِنْتَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَرْسَلَتْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَقُولُ: إِنَّ نِسَاءَكَ يَنْشُدْنَكَ اللَّهَ العَدْلَ فِي بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ، فَكَلَّمَتْهُ فَقَالَ: «يَا بُنَيَّةُ أَلاَ تُحِبِّينَ مَا أُحِبُّ؟»، قَالَتْ: بَلَى، فَرَجَعَتْ إِلَيْهِنَّ، فَأَخْبَرَتْهُنَّ، فَقُلْنَ: ارْجِعِي إِلَيْهِ، فَأَبَتْ أَنْ تَرْجِعَ، فَأَرْسَلْنَ زَيْنَبَ بِنْتَ جَحْشٍ، فَأَتَتْهُ، فَأَغْلَظَتْ، وَقَالَتْ: إِنَّ نِسَاءَكَ يَنْشُدْنَكَ اللَّهَ العَدْلَ فِي بِنْتِ ابْنِ أَبِي قُحَافَةَ، فَرَفَعَتْ صَوْتَهَا حَتَّى تَنَاوَلَتْ عَائِشَةَ وَهِيَ قَاعِدَةٌ فَسَبَّتْهَا، حَتَّى إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيَنْظُرُ إِلَى عَائِشَةَ، هَلْ تَكَلَّمُ، قَالَ: فَتَكَلَّمَتْ عَائِشَةُ تَرُدُّ عَلَى زَيْنَبَ حَتَّى أَسْكَتَتْهَا، قَالَتْ: فَنَظَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى عَائِشَةَ، وَقَالَ: «إِنَّهَا بِنْتُ أَبِي بَكْرٍ»، قَالَ البُخَارِيُّ: «الكَلاَمُ الأَخِيرُ قِصَّةُ فَاطِمَةَ»، يُذْكَرُ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ رَجُلٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَقَالَ أَبُو مَرْوَانَ عَنْ هِشَامٍ، عَنْ عُرْوَةَ: كَانَ النَّاسُ يَتَحَرَّوْنَ بِهَدَايَاهُمْ يَوْمَ عَائِشَةَ، وَعَنْ هِشَامٍ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ قُرَيْشٍ، وَرَجُلٍ مِنَ المَوَالِي، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ، قَالَتْ عَائِشَةُ: كُنْتُ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاسْتَأْذَنَتْ فَاطِمَةُ

مترجم:

2581.

حضرت عائشہ  ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ک بیویوں کے دو گروپ تھے: ایک گروپ میں حضرت عائشہ  ؓ ، حضرت حفصہ  ؓ ، حضرت صفیہ  ؓ ، حضرت سودہ  ؓ تھیں، جبکہ دوسرے گروپ میں حضرت ام سلمہ  ؓ کے ساتھ باقی تمام ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین تھیں۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم أجمعین حضرت عائشہ  ؓ کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کی (والہانہ) محبت کو جانتے تھے، اس لیے جب کسی کے پاس تحفہ ہوتا اور وہ اسے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا (تو) اس میں تاخیر کرتا حتیٰ کہ جب رسول اللہ ﷺ حضرت عائشہ  ؓ کے گھر میں تشریف فرماہوتے تو ہدیہ بھیجنے والا رسول اللہ ﷺ کے لیے حضرت عائشہ  ؓ کے گھر میں ہدیہ بھیجتا۔ یہ صورت حال دیکھ کر حضرت ام سلمہ  ؓ کے گروپ نے مشورہ کرکے ان سے کہا کہ آپ رسول اللہ ﷺ سے بات کریں کہ وہ لوگوں سے کہیں کہ جس کسی نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں تحفہ بھیجنا ہوتو آپ اپنی جس بیوی کے ہاں مقیم ہوں وہیں تحفہ بھیجا کرے۔ ان کے کہنے کے مطابق حضرت ام سلمہ  ؓ نےآپ سے گفتگو کی لیکن آپ نے کوئی جواب نہ دیا۔ جب اس گروپ نے حضرت ام سلمہ  ؓ سے پوچھا تو انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے مجھے کوئی جواب ہی نہیں دیا۔ انھوں نے ان سے کہا: آپ پھر بات کریں۔ وہ بیان کرتی ہیں کہ جب باری کے دن آپ تشریف لائے تو انھوں نے پھر بات چھیڑی لیکن آپ نے کوئی جواب نہ دیا۔ جب امہات المومنین رضوان اللہ عنھن أجمعین نے حضرت ام سلمہ  ؓ سے پوچھا تو انھوں نے بتایا: آپ نے مجھے کوئی جواب نہیں دیا۔ ازواج مطہرات نے ان سے کہا: تم یہ بات کرتی رہو جب تک آپ جواب نہیں دیتے۔ پھر جب ام سلمہ  ؓ کی باری آئی توانھوں نے آپ سے عرض کیا، تب آپ نے فرمایا: ’’تم عائشہ  ؓ کے بارے میں مجھے اذیت نہ دو کیونکہ میں جب عائشہ  ؓ کے علاوہ کسی اور بیوی کے کپڑوں میں ہوتا ہوں تو مجھ پر وحی نازل نہیں ہوتی۔‘‘ حضرت ام سلمہ  ؓ  کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ ! میں آپ کو اذیت پہنچانے سے توبہ کرتی ہوں۔ پھر امہات المومنین رضوان اللہ عنھن أجمعین نے رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی حضرت فاطمہ  ؓ کو بلایا اور انھیں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں یہ پیغام دے کر بھیجا کہ آپ کی ازواج آپ کو اللہ کی قسم دیتی ہیں کہ آپ حضرت ابوبکر ؓ کی بیٹی کے متعلق انصاف کریں، چنانچہ حضرت فاطمہ  ؓ نے بھی جاکر آپ سے بات چیت کی تو آپ نے فرمایا: ’’دختر من! کیا تو اس سے محبت نہیں کرتی جس سے میں محبت کرتا ہوں؟‘‘ سیدہ فاطمہ  ؓ نے عرض کیا: کیوں نہیں۔ اس کے بعد وہ واپس آگئیں اور ازواج مطہرات کو جواب سے آگاہ کیا۔ انھوں نے کہا: دوبارہ جاؤ لیکن حضرت فاطمہ  ؓ نے دوبارہ جانے سے انکار کردیا۔ آخر انھوں نے حضرت زینب بنت جحش  ؓ کو بھیجا۔ وہ آئیں تو سخت گفتگو کرنے لگیں اور کہا کہ آپ کی ازواج ابن ابوقحافہ کی بیٹی کے بارے میں اللہ کی قسم دے کر انصاف مانگتی ہیں، ان کی آواز بلند ہوئی یہاں تک کہ حضرت عائشہ  ؓ سے لے دے شروع کردی جو وہاں بیٹھی ہوئی تھیں بلکہ انھیں برا بھلا کہنا شروع کردیا۔ رسول اللہ ﷺ حضرت عائشہ  ؓ کی طرف دیکھنے لگے کہ وہ کچھ جواب دیتی ہیں یا نہیں؟ چنانچہ حضرت عائشہ  ؓ بولیں اور حضرت زینب  ؓ کو جواب دیتی رہیں یہاں تک کہ انھیں چپ کرادیا۔ نبی کریم ﷺ نے حضرت عائشہ  ؓ کی طرف دیکھ کر فرمایا: ’’ آخر یہ ابو بکر  ؓ کی بیٹی ہیں۔‘‘  امام بخاری   ؒ کہتے ہیں: آخر کلام، یعنی حضرت فاطمہ  ؓ  کا قصہ ہشام بن عروہ نے ایک اور شخص سے بھی بیان کیا ہے، اس نے امام زہریؒ سے، انھوں نے محمد بن عبدالرحمان سے اسے روایت کیا ہے۔ ابو مروان نے ہشام سے، انھوں نے عروہ سے روایت کیا کہ لوگ اپنے تحائف بھیجنے میں حضرت عائشہ  ؓ  کی باری کے منتظر رہتے تھے۔ ایک دوسری سند سے مروی ہے کہ حضرت عائشہ  ؓ نے فرمایا: میں نبی کریم ﷺ کے پاس تھی جب سیدہ فاطمہ  ؓ نے اجازت طلب کی۔