تشریح:
(1) اس طویل حدیث سے امام بخاری ؒ نے یہ ثابت کیا ہے کہ کوئی شخص اپنے کسی خاص دوست کو تحائف و ہدایا اس کی خاص بیوی کی باری میں پیش کر سکتا ہے۔ یہ تحفہ بھیجنے والے کی مرضی ہے کہ وہ جب چاہے جہاں چاہے بھیجے، اس پر زبردستی کوئی حکم نہیں ٹھونسا جا سکتا کہ فلاں وقت بھیجے اور فلاں وقت نہ بھیجے۔ (2) رسول اللہ ﷺ کی ازواج مطہرات میں سے صدیقۂ کائنات حضرت عائشہ ؓ کو ایک خاص مقام حاصل تھا۔ اللہ تعالیٰ کی پھٹکار ہو ان نالائق لوگوں پر جو حضرت عائشہ ؓ کے متعلق زبان درازی کرتے ہیں۔ (3) رسول اللہ ﷺ نے ان کے متعلق فرمایا: ’’ آخر یہ حضرت ابوبکر ؓ کی دختر ہیں۔‘‘ حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں: اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت عائشہ ؓ شریف الطبع، زیرک و دانا اور معاملہ فہم ہیں جیسا کہ ان کے والد گرامی نہایت شریف اور عقلمند انسان ہیں۔ (فتح الباري:256/5) رسول اللہ ﷺ کا مقصد فتنے کا سدباب تھا۔ اگر فریقین دل کی بھڑاس نہ نکالتے تو قصہ دراز ہو جاتا۔ اچھا ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کی موجودگی میں قصہ کوتاہ (مختصر) ہو گیا۔ واللہ أعلم