تشریح:
(1) یہ روایت اپنے مفہوم میں واضح ہے، البتہ فقہاء نے اس مسئلے میں اختلاف کیا ہے کہ کوئی شخص اپنے بیٹوں کو عطیہ دیتے وقت فرق کر سکتا ہے یا نہیں؟ امام احمد ؒ اور دیگر کئی ائمہ کا موقف ہے کہ لڑکے کو لڑکی سے دوگنا دینا جائز ہے، تاہم جمہور کا موقف یہ ہے کہ اولاد میں مساوات اور عدل و انصاف ضروری ہے۔ انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ فرق نہ کیا جائے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرق پر مبنی عطیہ واپس لینے کا حکم دیا، پھر دوسری حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’میں اس ظلم پر گواہی نہیں دے سکتا۔‘‘ (صحیح البخاري، الشھادات، حدیث:2650) (2) اگر کوئی بیٹا وغیرہ معذور ہے، وہ کام کاج کے قابل نہیں تو عدل و انصاف کا تقاضا ہے کہ ایسی اولاد کو باپ امتیازی حیثیت سے کچھ دے۔ اگر مساوات کا خیال رکھتے ہوئے اسے کچھ نہیں دے گا تو زندگی کے مسائل سلجھانے کے لیے اس نے معذور اولاد کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔ ایسا کرنا دین اسلام کے خلاف ہے۔ باپ کو چاہیے کہ معذور اولاد کے لیے کوئی رقم یا جائیداد مختص کر دے۔ واللہ أعلم