تشریح:
1۔ اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ایمان اور عمل کا چولی دامن کا ساتھ ہے، یعنی دونوں ایک دوسرے کو لازم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کسی جگہ ایمان پر عمل کا اور کسی جگہ عمل پر ایمان کا اطلاق ہوا ہے مذکورہ حدیث میں سوال تھا کہ کون ساعمل افضل ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ ایمان بھی ایک عمل ہے اس کی صراحت حدیث میں موجود ہےجس میں کوئی تاویل نہیں ہو سکتی۔ دوسرے اعمال کو اہمیت کے پیش نظر ذکر کیا گیا ہے کیونکہ ایمانی طاقت کے ساتھ ایک مرد مومن میدان جہاد میں اترتا ہے حج مبرور سے مراد وہ حج ہے جوریا کاری اور گناہوں کی آلائش سے پاک ہو۔ اس کی علامت یہ ہے کہ آدمی اپنی زندگی کے معمولات پہلے سے بہتر بنالے۔
2۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرنے والے حضرت ابو ذرغفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے نیز اس حدیث میں ایمان کے بعد جہاد کا ذکر ہے جبکہ حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث میں حج کا ذکر نہیں بلکہ اس کی جگہ عتق ہے ان احادیث میں کوئی تضاد نہیں بلکہ یہ فرق سائل کی حالت و ضرورت اور موقع و محل کے لحاظ سے ہے۔(فتح الباري: 1؍ 108)
3۔ اس روایت میں جہاد کو مقدم کیا گیا ہے۔ حالانکہ یہ ارکان خمسہ سے نہیں ہے اور حج کو مؤخر کیا جو ارکان خمسہ سے ہے اس لیے کہ جہاد کا نفع پوری ملت کو حاصل ہوسکتا ہے جبکہ حج کا نفع ایک حاجی کی ذات تک منحصر ہے۔ (فتح الباري: 1؍ 108) واللہ أعلم
4۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر عمل کا عطف ایمان پر ڈالا گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان اور عمل ایک دوسرے سے مغایر ہیں اور یہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے موقف کے خلاف ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ عطف ہر جگہ مغایرت کے لیے نہیں ہوتا بلکہ بعض مقامات پر خاص کا عطف عام پر بھی ہوتا ہے جیسا کہ قرآن میں ہے:﴿مَن كَانَ عَدُوًّا لِّلَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَرُسُلِهِ وَجِبْرِيلَ وَمِيكَالَ فَإِنَّ اللَّهَ عَدُوٌّ لِّلْكَافِرِينَ﴾( البقرة: 2؍98) ’’جو شخص اللہ کا اس کے فرشتوں اس کے رسولوں جبریل علیہ السلام اور میکائیل علیہ السلام کا دشمن ہو، ایسے کافروں کا دشمن خود اللہ ہے۔‘‘ اس آیت میں فرشتوں کے بعد بذریعہ عطف جبریل علیہ السلام اورمیکائیل کا ذکر بطور اہمیت کے ہے مغایرت کے لیے نہیں۔ اسی طرح ایمان کے بعد عمل کا ذکر یا عمل کا ایمان پر عطف کسی خاص اہمیت کے پیش نظر ہے، ان دونوں میں کوئی مغایرت نہیں ہے۔