قسم الحديث (القائل): موقوف ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الشَّهَادَاتِ (بَابُ القُرْعَةِ فِي المُشْكِلاَتِ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَقَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ: {إِذْ يُلْقُونَ أَقْلاَمَهُمْ أَيُّهُمْ يَكْفُلُ مَرْيَمَ} [آل عمران: 44] وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: " اقْتَرَعُوا فَجَرَتْ الأَقْلاَمُ مَعَ الجِرْيَةِ، وَعَالَ قَلَمُ زَكَرِيَّاءَ الجِرْيَةَ، فَكَفَلَهَا زكَرِيَّاءُ وَقَوْلِهِ: {فَسَاهَمَ} [الصافات: 141]: «أَقْرَعَ»، {فَكَانَ مِنَ المُدْحَضِينَ} [الصافات: 141]: «مِنَ المَسْهُومِينَ» وَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: " عَرَضَ النَّبِيُّ ﷺعَلَى قَوْمٍ اليَمِينَ فَأَسْرَعُوا، فَأَمَرَ أَنْ يُسْهِمَ بَيْنَهُمْ: أَيُّهُمْ يَحْلِفُ "

2686. حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، قَالَ: حَدَّثَنِي الشَّعْبِيُّ، أَنَّهُ سَمِعَ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، يَقُولُ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَثَلُ المُدْهِنِ فِي حُدُودِ اللَّهِ، وَالوَاقِعِ فِيهَا، مَثَلُ قَوْمٍ اسْتَهَمُوا سَفِينَةً، فَصَارَ بَعْضُهُمْ فِي أَسْفَلِهَا وَصَارَ بَعْضُهُمْ فِي أَعْلاَهَا، فَكَانَ الَّذِي فِي أَسْفَلِهَا يَمُرُّونَ بِالْمَاءِ عَلَى الَّذِينَ فِي أَعْلاَهَا، فَتَأَذَّوْا بِهِ، فَأَخَذَ فَأْسًا فَجَعَلَ يَنْقُرُ أَسْفَلَ السَّفِينَةِ، فَأَتَوْهُ فَقَالُوا: مَا لَكَ، قَالَ: تَأَذَّيْتُمْ بِي وَلاَ بُدَّ لِي مِنَ المَاءِ، فَإِنْ أَخَذُوا عَلَى يَدَيْهِ أَنْجَوْهُ وَنَجَّوْا أَنْفُسَهُمْ، وَإِنْ تَرَكُوهُ أَهْلَكُوهُ وَأَهْلَكُوا أَنْفُسَهُمْ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد کہ ” جب وہ اپنی قلمیں ڈالنے لگے ( قرعہ اندازی کے لیے تاکہ ) فیصلہ کرسکیں کہ مریم کی کفالت کون کرے “ ۔ حضرت ابن عباس ؓ نے ( آیت مذکورہ کی تفسیر میں فرمایا ) کہ جب سب لوگوں نے ( نہراردن میں ) اپنے اپنے قلم ڈالے ، تو تمام قلم پانی کے بہاو کے ساتھ بہہ گئے ، لیکن زکریا ؑ کا قلم اس بہاو میں اوپر آگیا ۔ اس لیے انہوں نے ہی مریم ؑ کی تربیت اپنے ذمہ لی اور اللہ تعالیٰ کے ارشاد فساہم کے معنی ہیں پس انہوں نے قرعہ ڈالا ۔ فکان من المدحضین ( میں مدحضین کے معنی ہیں ) من المسہومین ( یعنی قرعہ انہیں کے نام پر نکلا ) حضرت ابوہریرہ ؓنے کہا کہ نبی کریم ﷺنے ( کسی مقدمہ میں مدعیٰ علیہ ہونے کی بنا پر ) کچھ لوگوں سے قسم کھانے کے لیے فرمایا ، تو وہ سب ( ایک ساتھ ) آگے بڑھے ۔ اس لیے آپ ﷺنے ان میں قرعہ ڈالنے کے لیے حکم فرمایا تاکہ فیصلہ ہو کہ سب سے پہلے قسم کون آدمی کھائے ۔ جمہور علماءکے نزدیک قطع نزاع کے لیے قرعہ ڈالنا جائز اور مشروع ہے۔ ابن منذر نے حضرت امام ابوحنیفہ سے بھی اس کا جواز نقل کیا ہے۔ پس آیات اور حدیث سے قرعہ اندازی کا ثبوت ہوا۔ اب اگر کوئی قرعہ اندازی کا انکار کرے تو وہ خود غلطی میں مبتلا ہے۔

2686.

حضرت نعمان بن بشیر  ؓ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ کی حدود کے متعلق سستی برتنے والے (خاموشی اختیار کرنے والے) اور ان حدود میں واقع ہونے والے کی مثال اس قوم جیسی ہے جنھوں نے کشتی کے متعلق قرعہ اندازی کی تو کچھ لوگ کشتی کے نیچے اور کچھ اس کے بالائی حصے میں چلے گئے۔ جو نچلے حصے میں تھے وہ پانی لے کر اوپر والوں کے پاس سے گزرتے تو انھیں اس سے تکلیف ہوتی۔ نچلے حصے والوں میں سے ایک شخص نے کلہاڑا لیا تاکہ کشتی کے نیچے سے سوراخ کرے۔ جب وہ سوراخ کرنے لگاتو لوگ اس کے پاس آکر کہنے لگے : یہ تم کیا کررہے ہو؟ اس نے کہا: میری وجہ سے تمھیں تکلیف ہوتی ہے اور مجھے پانی کی ضرورت ہے۔ اگر وہ لوگ اس کا ہاتھ پکڑ لیں گے تو اس کو بھی بچا لیں گے اور خود بھی بچ جائیں گے اور اگر اسے چھوڑ دیں گے تو اس کو بھی ہلاک کریں گے اور خود بھی ہلاک ہوں گے۔‘‘