تشریح:
(1) معلوم ہوا کہ دیت دے کر صلح کرنا جائز ہے۔ ربیع ؓ حضرت انس بن مالک ؓ کی پھوپھی تھیں اور انس بن نضر ؓ ان کے چچا ہیں۔ (2) حضرت انس بن نضر نے شرعی حکم کا انکار نہیں کیا تھا بلکہ انہوں نے خیال کیا کہ شاید دیت او قصاص میں اختیار ہے، ان میں جو بھی ادا کر دیا جائے جائز ہے۔ انہیں قصاص کی تعیین کا علم نہیں تھا جبکہ قرآن مجید میں ہے: (وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ) ’’دانت کے بدلے دانت (توڑا جائے۔‘‘) (المائدة:45:5) اس کا ایک خوبصورت جواب یہ بھی ہے کہ حضرت انس بن نضر ؓ نے لا تكسر کے الفاظ سے حکم الٰہی کو رَد نہیں کیا تھا بلکہ اللہ کے فضل پر پختہ یقین کرتے ہوئے اس کے عدم وقوع کی خبر دی تھی، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اعتماد و یقین کو ٹھیس نہیں پہنچائی۔ اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے خود اس بات کی گواہی دی کہ بعض مخلص بندے ایسے ہوتے ہیں کہ اللہ ان کی کہی ہوئی بات کو پورا کرتا ہے۔ (3) امام بخاری ؒ نے فزاری کی روایت سے تطبیق کی صورت ذکر کی ہے کہ ان لوگوں نے قصاص معاف کر کے دیت قبول کر لی، مطلق معافی مراد نہیں ہے۔ امام بخاری ؒ نے فزاری کی روایت کو خود ہی متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث:4611)