تشریح:
(1) اقرار میں کسی قسم کی شرط اور استثنا جائز ہے، خواہ زیادہ مقدار میں سے تھوڑی کا استثنا ہو یا اس کے برعکس تھوڑی مقدار میں زیادہ کا استثنا ہو کیونکہ قرآن میں دونوں استثنا موجود ہیں، ایک یہ ہے: ﴿إِنَّ عِبَادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَانٌ إِلَّا مَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْغَاوِينَ ﴿٤٢﴾) ’’بےشک میرے بندوں پر تیرا کچھ زور نہ چل سکے گا مگر ان لوگوں پر جو گمراہ ہو کر تیری پیروی کریں گے۔‘‘ (الحجر42:15) اور دوسرا استثنا یہ ہے: ﴿وَلَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ ﴿٣٩﴾ إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ ﴿٤٠﴾) ’’اور میں ان سب کو بہکا کے چھوڑوں گا مگر تیرے مخلص بندے اس سے محفوظ رہیں گے۔‘‘ (الحجر40،39:15) ان میں سے ایک، دوسرے سے زیادہ ہے اور ان میں استثنیٰ واقع ہوا ہے۔ معلوم ہوا کہ دونوں قسم کے استثنا صحیح ہیں۔ جمہور کا یہی موقف ہے۔ بہرحال اقرار میں کوئی شرط لگانا یا کسی کو مستثنیٰ کرنا صحیح ہے۔ (فتح الباري:434/5) (2) واضح رہے کہ اس حدیث میں ان اسمائے حسنیٰ کی خبر دی گئی ہے جنہیں یاد کرنے اور ان کے مطابق عمل کرنے والے کو جنت کی خوش خبری دی گئی ہے۔ ویسے اللہ تعالیٰ کے ننانوے ناموں کے علاوہ بھی بے شمار نام ہیں۔ ان میں سے اکثر قرآن مجید میں بیان ہوئے ہیں۔ ان میں لفظ "اللہ" اسم ذاتی ہے اور باقی صفاتی نام ہیں۔