تشریح:
اس مقام پر دو مسئلے ہیں جن کی وضاحت یہ ہے کہ اشارے سے وصیت کا ثبوت ہو سکتا ہے کیونکہ اشارہ، کلام کے قائم مقام ہے بشرطیکہ اشارہ واضح ہو، اس سے مقصد میں کسی قسم کا شک پیدا نہ ہوتا ہو۔ اشارہ سر سے کیا جائے یا ہاتھ سے، اگر حاضرین مقصد سمجھ جاتے ہیں تو وصیت کے لیے کافی ہے۔ بعض حضرات کا موقف ہے کہ مریض کے اشارے سے کسی وصیت کا ثبوت نہیں ہو گا جب تک کلام نہ کرے، لیکن یہ موقف حدیث بالا کے پیش نظر محل نظر ہے۔ دوسرا مسئلہ قصاص کا ہے۔ وہ اشارے سے ثابت نہیں ہو گا جب تک کہ ملزم اپنی زبان سے اس کا اعتراف نہ کرے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے قصاص کا حکم اشارے سے گواہی کی بنا پر نہیں دیا بلکہ یہودی کے اقرار جرم کے بعد اس کا سر کچلا گیا، چنانچہ امام بخاری ؒ نے کتاب الدیات میں خود ایک عنوان ان الفاظ میں قائم کیا ہے: (باب: إذا أقر بالقتل مرة قتل به) ’’جب کوئی شخص ایک مرتبہ قتل کا اقرار کرے تو اسے قصاص کے طور پر قتل کیا جائے گا۔‘‘ وہاں دلیل کے طور پر یہی حدیث پیش کی گئی ہے۔