قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الوَصَايَا (بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْ دَيْنٍ} [النساء: 11])

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَيُذْكَرُ أَنَّ شُرَيْحًا، وَعُمَرَ بْنَ عَبْدِ العَزِيزِ، وَطَاوُسًا، وَعَطَاءً، وَابْنَ أُذَيْنَةَ: «أَجَازُوا إِقْرَارَ المَرِيضِ بِدَيْنٍ» وَقَالَ الحَسَنُ: «أَحَقُّ مَا تَصَدَّقَ بِهِ الرَّجُلُ آخِرَ يَوْمٍ مِنَ الدُّنْيَا، وَأَوَّلَ يَوْمٍ مِنَ الآخِرَةِ» وَقَالَ إِبْرَاهِيمُ: وَالحَكَمُ: «إِذَا أَبْرَأَ الوَارِثَ مِنَ الدَّيْنِ بَرِئَ» وَأَوْصَى رَافِعُ بْنُ خَدِيجٍ: «أَنْ لاَ تُكْشَفَ امْرَأَتُهُ الفَزَارِيَّةُ عَمَّا أُغْلِقَ [ص:5] عَلَيْهِ بَابُهَا» وَقَالَ الحَسَنُ: " إِذَا قَالَ لِمَمْلُوكِهِ عِنْدَ المَوْتِ: كُنْتُ أَعْتَقْتُكَ، جَازَ " وَقَالَ الشَّعْبِيُّ: " إِذَا قَالَتِ المَرْأَةُ عِنْدَ مَوْتِهَا: إِنَّ زَوْجِي قَضَانِي وَقَبَضْتُ مِنْهُ جَازَ " وَقَالَ بَعْضُ النَّاسِ: لاَ يَجُوزُ إِقْرَارُهُ لِسُوءِ الظَّنِّ بِهِ لِلْوَرَثَةِ، ثُمَّ اسْتَحْسَنَ، فَقَالَ: يَجُوزُ إِقْرَارُهُ بِالوَدِيعَةِ وَالبِضَاعَةِ وَالمُضَارَبَةِ " وَقَدْ قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: «إِيَّاكُمْ وَالظَّنَّ، فَإِنَّ الظَّنَّ أَكْذَبُ الحَدِيثِ» وَلاَ يَحِلُّ مَالُ المُسْلِمِينَ " لِقَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " آيَةُ المُنَافِقِ: إِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ " وَقَالَ اللَّهُ تَعَالَى: {إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا} [النساء: 58] «فَلَمْ يَخُصَّ وَارِثًا وَلاَ غَيْرَهُ» فِيهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ

2749. حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ أَبُو الرَّبِيعِ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا نَافِعُ بْنُ مَالِكِ بْنِ أَبِي عَامِرٍ أَبُو سُهَيْلٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: آيَةُ المُنَافِقِ ثَلاَثٌ: إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، وَإِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ، وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

اور منقول ہے کہ قاضی شریح، عمر بن عبد العزیز، طاؤس، عطاءاور عبدالرحمٰن بن اذینہ ان لوگوں نے بیماری میں قرض کا اقرار درست رکھا ہے اور امام حسن بصری نے کہا سب سے زیادہ آدمی کو اس وقت سچا سمجھنا چاہئے جب دنیا میں اس کاآخری دن اور آخرت میں پہلا دن ہو اور ابراہیم نخعی اور حکم بن عتبہ نے کہا اگر بیماروارث سے یوں کہے کہ میرا اس پر کچھ قرضہ نہیں تو یہ ابراءصحیح ہوگا اور رافع بن خدیج ( صحابی ) نے یہ وصیت کی کہ ان کی بیوی فزاریہ کے دروازے میں جو مال بند ہے وہ نہ کھولا جائے اور امام حسن بصری نے کہا اگر کوئی مرتے وقت اپنے غلام سے کہے میںتجھ کو آزاد کر چکا تو جائز ہے۔ اور شعبی نے کہا کہ اگر عورت مرتے وقت یوں کہے میرا خاوند مجھ کو مہر دے چکا ہے اور میں لے چکی ہوں تو جائز ہوگا اور بعضے لوگ ( حنفیہ ) کہتے ہیں بیمار کا اقرار کسی وارث کے لئے دوسرے وارثوں کی بدگمانی کی وجہ سے صحیح نہ ہوگا۔ پھر یہی لوگ کہتے ہیں کہ امانت اور بضاعت اور مضاربت کا اگر بیمار اقرار کرے تو صحیح ہے حالانکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم بدگمانی سے بچے رہو بدگمانی بڑا جھوٹ ہے اورمسلمانو! ( دوسرے وارثوں کا حق ) مار لینا درست نہیں کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے منافق کی نشانی یہ ہے کہ امانت میں خیانت کرے اور اللہ تعالیٰ نے سورہ نساء میں فرمایا اللہ تعالیٰ تم کو یہ حکم دیتا ہے کہ جس کی امانت ہے اس کو پہنچادو۔ اس میں وارث یا غیر وارث کی کوئی خصوصیت نہیں ہے۔ اسی مضمون میں عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مرفوع حدیث مروی ہے۔ تشریح : اس باب کے ذیل میں حضرت حافظ صاحب فرماتے ہیں۔ اراد المصنف واللہ اعلم بھذہ الترجمۃ الاحتجاج بما اختارہ من جواز اقرار المریض بالدین مطلقا سواءکان المقرلہ وارثا او اجنبیا ووجہ الدلالۃ انہ سبحانہ وتعالیٰ سوی بین الوصیۃ والدین فی تقدیمھا علی المیراث ولم یفصل فخرجت الوصیۃ للوارث بالدلیل الذی تقدم وبقی الاقرار بالدین علی حالہ الخ یعنی اس باب کے منعقد کرنے سے مصنف کا ارادہ اس امر پر حجت پکڑنا ہے کہ انہوں نے مریض کا قرض کے بارے میں مطلقاً اقرار کرلینا جائز قرار دیا ہے۔ جس کے لئے مریض اقرار کر رہا ہے وہ اس کا وارث ہویا کوئی اجنبی انسان ہو‘ اس لئے کہ آیت شریفہ میں اللہ پاک نے میراث کے اوپر وصیت اور قرض ہر دو کو برابری کے ساتھ مقدم کیا ہے۔ ان ہردو میں کوئی فاصلہ نہیں فرمایا پس وصیت دلیل مقدم کی بنا پر وارث کے لئے منسوخ ہوگئی اور قرض کا اقرار کرلینا اپنی حالت پر قائم رہا۔ حضرت امام رحمہ اللہ نے اپنے خیال کی تائید میں مختلف ائمہ کرام و محدثین عظام کے اقوال استشہاد کے طور پر نقل فرمائے ہیں۔ شارحین لکھتے ہیں قال بعض الناس ای الحنفیۃ یقولون لا یجوز اقرارالمریض لبعض الورثۃ لانہ مظنۃ انہ یرید بہ الا ساءۃ فی آخر الامر ثم ناقضوا حیث جوزوہ اقرارہ للورثۃ بالودیعۃ و نحوہ بمجرد والاستحسان من غیر دلیل یدل علی امتناع ذالک وجواز ھذہ ثم رد علیھم بانہ سوءو ظن بہ وبانہ لا یحل مال المسلمین ای المقر لہ لحدیث اذا اتمن خان کذا فی مجمع البحار یعنی حنفیہ نے کہا کہ بعض وارثوں کے لئے مریض کا اقرار قرض جائز نہیں اس گمان پر کہ ممکن ہے مریض وارث کے حق میں برائی کا ارادہ رکھتا ہو۔ اس پر پھر مناقصہ پیش کیا ہے بایں طور پر کہ احناف حضرات نے مریض کا ودیعت کے بارے میں کسی وارث کے لئے اقرار کرنا جائز قرار دیا ہے حالانکہ یہ خیال محض استحسان کی بنا پر ہے جس کی کوئی دلیل نہیں جسے اس کے امتناع یا جواز پر پیش کیا جا سکے۔ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے پھر ان پر بایں طور پر رد فرمایا کہ یہ مریض کے ساتھ سوءظن ہے اور بایں طور کہ جس کے لئے مریض اقرار کررہا ہے‘ اس مسلمان کا مال ہڑپ کرنا اس حدیث سے جائز نہیں کہ امانت کا مال نہ ادا کرنا خیانت ہے۔ مریض نے جس وارث وغیرہ کے لئے اقرار کیا ہے وہ مال اس وارث وغیرہ کی امانت ہوگیا جس کی ادائیگی ضروری ہے۔ علامہ عینی نے کہا امانت اور مضاربت کا اقرار اس لئے صحیح ہے کہ قرض میں لزوم ہوتاہے، ان چیزوں میں لزوم نہیں۔ میں کہتا ہوں گو لزوم نہ ہو مگر وارثوں کا نقصان تو ان میں بھی محتمل ہے جیسے قرض میں اور جب علت موجود ہے تو حکم بھی وہی ہونا چاہئے۔ اس لئے اعتراض امام بخاری کا صحیح ہے۔ حدیث ایاکم و ظنکو امام بخاری نے کتاب الادب میں وصل کیا۔ یہ حدیث لاکر امام بخاری نے حنفیہ کا رد کیا جو بد گمانی ناجوازی کی علت قرار دیتے ہیں۔ علامہ عینی نے کہا ہم بدگمانی کو تو علت ہی قرار نہیں دیتے پھر یہ استدلال بے کار ہے اور اگر مان لیں تب بھی حدیث سے بدگمانی منع ہے اور یہ گمان بدگمان نہیں ہے میں کہتا ہوں جب ایک مسلمان کو مرتے وقت جھوٹا سمجھا تو اس سے بڑھ کر اور کیا بدگمانی ہوگی۔ حدیث سے امام بخاری نے یہ نکالا ہے کہ مریض پر جب کسی کا قرض ہو تو اس کا اقرار کرنا چاہئے۔ ورنہ وہ خیانت کا مرتکب ہو گا اور جب اقرارکرنا واجب ہوا تو اس کا اقرار معتبر بھی ہوگا ورنہ اقرار کے واجب کرنے سے فائدہ ہی کیا ہے اور آیت سے یہ نکالا کہ قرض بھی دوسرے کی گویا امانت ہے خواہ وہ وارث ہو یا نہ ہو۔ پس وارث کے لئے اقرار صحیح ہوگا۔ عینی کا یہ اعتراض کہ قرض کو امانت نہیں کہہ سکتے اور آیت میں امانت کی ادائیگی کا حکم ہے‘ صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ امانت سے یہاں لغوی امانت مراد ہے یعنی دوسرے کا حق نہ کہ شرعی امانت اور قرض لغوی امانت میں داخل ہے۔ اس آیت کا شان نزول اس پر دلالت کرتا ہے کہ آپ نے عثمان بن طلحہ شیی رحمہ اللہ سے کعبے کی کنجی لی اور اندر گئے۔ اس کنجی کو حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے مانگا اس وقت یہ آیت اتری‘آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ کنجی پھر شیی کو دے دی جو آج تک ان کے خاندان میں چلی آتی ہے۔ یہی وہ خاندان ہے جو قبل اسلام سے آج تک کعبہ شریف کی کنجی کا محافظ چلا آرہاہے۔ اسلامی دور میں بھی اسی خاندان کو اس خدمت پر بحال رکھا گیا اور آج سعودی حکومت کے دور میں بھی یہی خاندان ہے جو کعبہ شریف کی کنجی کا محافظ ہے۔ اگر امیر حکومت سعودی بھی کعبہ میں داخل ہو نا چاہیں تو اسی خاندان سے ان کو یہ کنجی حاصل کرنا ضروری ہے اور واپسی کے بعد واپس کر دینا بھی ضروری ہے۔ اس دور میں حجاز میں کتنے سیاسی انقلابات آئے مگر اس نظام میں کسی دور میں فرق نہیں آیا ( اللہ تعالیٰ اس نظام کو ہمیشہ قائم دائم رکھے آمین ) حدیث لا صدقۃ الا الخاس کو امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الزکوٰۃ میں وصل کیا۔ اس حدیث سے امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ نکالا کہ دین ( قرض ) کا ادا کرنا وصیت پر مقدم ہے‘ اس لئے کہ وصیت مثل صدقہ کے ہے اور جو شخص مدیون ( مقروض ) ہو وہ مالدار نہیں ہے ۔ ( تفسیر وحیدی )

2749.

حضرت ابوہریرہ  ؓ سےروایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’منافق کی تین نشانیاں ہیں: وہ جب بات کر تا ہے تو جھوٹ بولتاہے، جب ا س کے پاس امانت رکھی جائے تو اس میں خیانت کرتاہے اور جب وعدہ کرتا ہے تو اس کی خلاف ورزی کرتا ہے۔‘‘