تشریح:
(1) اس حدیث کے مطابق ترک خیانت واجب ہے کیونکہ خیانت کرنا تو منافق کی علامت ہے جس سے بچنا ضروری ہے، اس بنا پر قرض مریض کے ذمے ہے وہ بھی گویا ایک امانت ہے، اس کا اقرار نہ کرنا خیانت کے مترادف ہے جو نفاق کی نشانی ہے۔ اس کا ادا کرنا مریض کی ذمے داری ہے۔ وہ اس صورت میں ادا ہو گا جب اس کا اقرار کیا جائے۔ جب اقرار کر لیا تو اس کا اعتبار کرنا ضروری ہے، بصورت دیگر اقرار کا کیا فائدہ، لہذا ادائے امانت اور ترک خیانت میں وارث اور غیر وارث کی تفریق ایجاد بندہ اور خود ساختہ ہے۔ (2) امام بخاری ؒ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ مریض کا قرض کے متعلق اقرار صحیح ہے اور امانت کی ادائیگی، خواہ وارث کے لیے ہو یا غیر وارث کے لیے دونوں صورتوں میں اس کا اقرار معتبر ہے۔ جو لوگ اس کا انکار کرتے ہیں وہ انکار استحسان اور قیاس کی بنیاد پر ہے جس پر کوئی ٹھوس دلیل نہیں ہے۔ واللہ أعلم