تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے یہاں تین روایات کو یکجا بیان کیا ہے۔ پہلی روایت انتہائی مختصر ہے، آئندہ تفصیل سے بیان ہو گی کہ حضرت ابو طلحہ ؓ انصار میں باغات کے اعتبار سے زیادہ مال دار تھے۔ ان کا ایک باغ مسجد نبوی کے سامنے تھا جہاں رسول اللہ ﷺ تشریف لے جاتے اور وہاں قدرتی چشموں سے میٹھا پانی پیا کرتے۔ اس باغ کو انہوں نے اپنے رشتے داروں حضرت ابی بن کعبؓ، حضرت حسان بن ثابتؓ، ان کے بھائی حضرت شداد بن اوس ؓ اور نبیط بن جابر ؓ میں تقسیم کر دیا تھا۔ حضرت حسان ؓ نے اپنا حصہ ایک لاکھ درہم کے عوض حضرت معاویہ ؓ کو فروخت کر دیا تھا۔ (فتح الباري:486/5) (2) دوسری اور تیسری روایت حضرت ابن عباس ؓاور حضرت ابو ہریرہ ؓ سے مختصر طور پر بیان ہوئی ہے۔ تفصیلی روایت سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بنو عبد مناف، حضرت عباسؓ، حضرت صفیہ ؓاور اپنی لخت جگر حضرت فاطمہ ؓ کو آواز دے کر پکارا اور کہا: ’’میں تمہیں اللہ کے عذاب سے نہیں بچا سکوں گا۔ اس دنیا میں رہتے ہوئے اپنا تحفظ خود کر لو۔‘‘ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث:4771) (3) امام بخاری ؒ کا مطلب یہ ہے کہ رشتے داروں میں مرد اور عورتیں سب شامل ہوتے ہیں، نیز یہ بھی بتانا چاہتے ہیں کہ اگر قریبی رشتے داروں کے لیے وصیت ہو تو تمام قریبی رشتے داروں کو دینا ضروری نہیں ہوتا کیونکہ بنو حرام جس میں ابو طلحہ اور حسان ؓ جمع ہوئے ہیں وہ مدینہ طیبہ میں بکثرت آباد تھے اور عمرو بن مالک کے قرابت دار جس میں ابو طلحہ اور ابی بن کعب ؓ جمع ہوئے تھے وہ تو بے حد و شمار تھے لیکن ان سب میں باغ تقسیم نہیں کیا بلکہ صرف ابی بن کعب اور حضرت حسان ؓ میں تقسیم کر دیا گیا۔