قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الوَصَايَا (بَابُ أَنْ يَتْرُكَ وَرَثَتَهُ أَغْنِيَاءَ خَيْرٌ مِنْ أَنْ يَتَكَفَّفُوا النَّاسَ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

ترجمة الباب:

2762 .   حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: جَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُنِي وَأَنَا بِمَكَّةَ، وَهُوَ يَكْرَهُ أَنْ يَمُوتَ بِالأَرْضِ الَّتِي هَاجَرَ مِنْهَا، قَالَ: «يَرْحَمُ اللَّهُ ابْنَ عَفْرَاءَ»، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أُوصِي بِمَالِي كُلِّهِ؟ قَالَ: «لاَ»، قُلْتُ: فَالشَّطْرُ، قَالَ: «لاَ»، قُلْتُ: الثُّلُثُ، قَالَ: «فَالثُّلُثُ، وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ، إِنَّكَ أَنْ تَدَعَ وَرَثَتَكَ أَغْنِيَاءَ خَيْرٌ مِنْ أَنْ تَدَعَهُمْ عَالَةً يَتَكَفَّفُونَ النَّاسَ فِي أَيْدِيهِمْ، وَإِنَّكَ مَهْمَا أَنْفَقْتَ مِنْ نَفَقَةٍ، فَإِنَّهَا صَدَقَةٌ، حَتَّى اللُّقْمَةُ الَّتِي تَرْفَعُهَا إِلَى فِي امْرَأَتِكَ، وَعَسَى اللَّهُ أَنْ يَرْفَعَكَ، فَيَنْتَفِعَ بِكَ نَاسٌ وَيُضَرَّ بِكَ آخَرُونَ»، وَلَمْ يَكُنْ لَهُ يَوْمَئِذٍ إِلَّا ابْنَةٌ

صحیح بخاری:

کتاب: وصیتوں کے مسائل کا بیان

 

تمہید کتاب  (

باب : اپنے وارثوں کو مالدار چھوڑنا اس سے بہتر ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں

)
 

مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)

2762.   حضرت سعد بن ابی وقاص  ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: نبی کریم ﷺ میری تیمارداری کے لیے تشریف لائے جبکہ میں مکہ مکرمہ میں تھا اور آپ اس بات کو پسند نہیں کرتے تھے کہ اس کی وفات اس سرزمین میں ہو جہاں سے ہجرت کرچکے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ عفراء کے بیٹے پر رحم فرمائے۔‘‘ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ !کیا میں اپنے تمام مال کی وصیت کرسکتا ہوں؟ آپ نے فرمایا: ’’نہیں۔‘‘ میں نے عرض کیا: اپنے نصف مال کی؟ آپ نے فرمایا: ’’نہیں۔‘‘ پھر میں نے عرض کیا: ایک تہائی کی وصیت کردوں؟ آپ نے فرمایا: ’’ہاں، تیسرے حصے کی وصیت درست ہے۔ لیکن یہ بھی زیادہ ہے، کیونکہ تم اگر اپنے ورثاء کو مالدار چھوڑ جاؤ تویہ اس سے بہتر ہے کہ انھیں تنگ دست محتاج چھوڑوجو لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلا کر مانگتے پھریں۔ تم جو مال بھی خرچ کروگے وہ تمہارے لیے صدقہ ہوگا حتیٰ کہ وہ لقمہ جسے تم توڑ کر ا پنی بیوی کے منہ میں ڈالو گے وہ بھی صدقہ ہے۔ یقیناً تیری عمر دراز ہوگی اور اللہ تعالیٰ تمھیں بلند مرتبہ عطا فرمائے گا کہ کچھ لوگ تمہاری ذات سے فائدہ اٹھائیں گے جبکہ کچھ لوگوں کو تمہاری وجہ سے نقصان پہنچے گا۔‘‘ اس وقت حضرت سعد  ؓ کی صرف ایک بیٹی تھی۔