تشریح:
(1) جب اس حدیث سے صدقے پر گواہ بنانا ثابت ہو گیا تو وقف اور وصیت کو اس پر قیاس کر کے ان کے لیے بھی گواہ بنانا ثابت ہو جائے گا۔ حافظ ابن حجر ؒ کہتے ہیں: حدیث میں رسول اللہ ﷺ کو اس کی اطلاع دینے کے لیے بھی یہ لفظ استعمال ہو سکتا ہے۔ ممکن ہے کہ معروف گواہی مراد نہ ہو۔ لیکن جب خریدوفروخت میں گواہ بنانا قرآن سے ثابت ہے، حالانکہ اس میں معاوضہ ہوتا ہے تو وقف اور وصیت میں تو بالاولیٰ گواہ بنانا درست ہو گا۔ (2) شارح بخاری ابن منیر ؒ کہتے ہیں: امام بخاری ؒ نے اس عنوان سے ایک وہم دور کیا ہے، وہ یہ کہ جب وقف وغیرہ نیکی کے اعمال سے ہے تو اسے لوگوں سے مخفی رکھنا چاہیے۔ امام بخاری ؒ نے وضاحت کر دی ہے کہ اس کا ظاہر کرنا جائز ہے تاکہ کل کو اس کے متعلق کوئی وارث جھگڑا یا اختلاف نہ کرے۔ (فتح الباري:478/5) ابن بطال ؒنے کہا ہے: وقف میں گواہ بنانا واجب ہے، اس کے بغیر وقف درست نہیں ہو گا۔ (عمدة القاري:45/10)