تشریح:
1۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک آدمی کو ننگے نہاتے ہوئے دیکھا تو فرمایا:’’تم میں سے جب کوئی غسل کرے تواسے چاہیے کہ چھپ کرنہائے۔‘‘ (سنن أبي داود، الحمام، حدیث:4012) اس حدیث کے پیش نظر محدث ابن ابی لیلیٰ ؒ کا موقف ہے کی خلوت میں ننگے نہانا جائز نہیں۔ امام بخاری ؒ نے ان کی تردید میں اس عنوان کو قائم کیا ہے کہ خلوت میں ننگے نہانا جائز ہے، البتہ ستر چھپا کر غسل کرنا بہتر ہے، کیونکہ خلوت میں اگرچہ کسی انسان کی موجودگی نہیں جس سے شرم آئے، مگر اللہ تعالیٰ سے شرم ہونی چاہیے۔ جب انسانوں سے حیا کے پیش نظر ننگا نہانا درست نہیں تو اللہ تعالیٰ سے تو بدرجہ اولیٰ شرمانا چاہیے۔ اس کے لیے امام بخاری ؒ نےحضرت بہز بن حکیم ؓ کی روایت کا حوالہ دیا ہے، ان کے دادا حضرت معاویہ بن حیدہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے خلوت میں ستر کھولنے کے متعلق سوال کیا تو آپ نے فرمایا:’’اللہ تعالیٰ اس بات کا زیادہ حق رکھتا ہے کہ اس سے حیا کی جائے۔‘‘ (جامع الترمذي، الأدب، حدیث: 2769) اب سوال پیداہوتا ہے کہ اس حدیث کے پیش نظرتو خلوت میں بھی ننگے نہانے کا جواز نہیں تو امام بخاری ؒ نے ننگے نہانے کے موقف کو کیوں اپنا یا ہے؟ امام بخاری ؒ نے اس کے جواز کے لیے دو واقعات بیان فرمائے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک دفعہ خلوت میں ننگے ہوکرنہائے تھے، اسی طرح حضرت ایوب علیہ السلام نے بھی برہنہ غسل فرمایا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے ان سابقہ انبیاء علیہم السلام کے عمل کو نقل فرمایا اور اس پر کسی قسم کا انکار نہیں فرمایا۔ اگر ہماری شریعت میں کوئی مختلف حکم ہوتا تو آپ اس پر ضرور تنبیہ فرمادیتے، اس لیے یہ سکوت، محل بیان کا سکوت ہے جس سے یہ نتیجہ برآمد ہوا کہ برہنہ غسل میں کوئی مضائقہ نہیں۔ اسے یوں بھی بیان کیا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں متعدد انبیاء علیہم السلام کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا:﴿ أُولَٰئِكَ الَّذِينَ هَدَى اللَّهُ ۖ فَبِهُدَاهُمُ اقْتَدِهْ ۗ ﴾ ’’ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت یاب بنایاہے لہذا آپ ان کی اقتدا کریں۔‘‘ (الأنعام 90/6) اس لیے ان جلیل القدرانبیاء علیہم السلام کا عمل قابل اقتدا اور لائق اتباع ہے۔ (فتح الباري:501/1)
2۔ کھلی فضا یا ایسے وسیع مکان میں جہاں لوگوں کے آنے کا احتمال نہ ہو، برہنہ غسل کرنا معصیت نہیں بلکہ صرف جائز ہے۔ بعض انتہاپسند حضرات غسل خانے میں بھی تہ بند باندھ کر غسل کرتے ہیں۔ ہماےنزدیک یہ بے جا تشدد ہے جس کی شریعت میں اجازت نہیں، کیونکہ غسل خانہ خود ایک تستر(پردے) کی صورت ہے۔
3۔ ابن بطال ؒ نے لکھا ہے کہ بنی اسرائیل حضرت موسیٰ علیہ السلام کے نافرمان تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کے سامنے ننگے نہاتے تھے۔ حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ یہ واقعہ بنی اسرائیل کے وادی تیہ میں قیام کے دوران میں پیش آیا جہاں عورتیں اورمکانات نہ تھے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کی شریعت میں ایک دوسرے کے سامنے ننگے ہو کر نہانا جائز تھا۔ اگرآپ کی نافرمانی کرتے ہوئے ایسا کرتے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ان کو روکنا ضرور منقول ہوتا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام تنہا غسل اس لیے کرتے تھے کہ ان کے ہاں ایسا کرنا افضل تھا۔ (فتح الباري:501/1)
4۔ موسیٰ علیہ السلام کے اس قصے سے معلوم ہوا کہ علاج یا عیب سے براءت کے پیش نظر دوسرے کی شرمگاہ کو دیکھنا جائز ہے، مثلاً: زوجین میں سے کوئی دوسرے کے متعلق فسخ نکاح کے لیے برص کا دعویٰ کرے تو اس کی تحقیق کے لیے دیکھنا درست ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ حضرات انبیاء علیہم السلام اپنی خلقت واخلاق کے لحاظ سے انتہائی کامل ہوتے ہیں اور جو کوئی ان کی طرف کسی نقص خلقی یا عیب خلقی منسوب کرے گا وہ انھیں ایذا دینے والوں میں سے ہوگا اور اس کے ارتکاب پر کفر کااندیشہ ہے۔ (فتح الباري:532/6)
5۔ ابن بطال نے لکھا ہے کہ واقعہ ایوب سے عریاں ہوکر غسل کرنے کا جواز معلوم ہوا، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ایوب علیہ السلام کو سونے کی ٹڈیاں جمع کرنے پر ملامت کی، مگرعریاں غسل کرنے پر کوئی عتاب نہیں فرمایا۔ (شرح ابن بطال:393/1)