تشریح:
1۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے مذکورہ بالا آیت کریمہ میں"عمل صالح"کی تفسیر کی ہے اس سے مراد یہ ہے کہ ان قدموں کو جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی جو اللہ کی راہ میں غبار آلود ہوئے ہوں نیز آیت کریمہ کے مطابق لوگوں کو ان کے قدموں کے آثار پر بھی ثواب ملتا ہےلڑائی کریں یا نہ کریں۔2۔حدیث سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ جس بندے کے قدم اللہ کی راہ میں غبار آلود ہو جائیں اللہ تعالیٰ اس پرجہنم کی آگ حرام کردیتا ہے وہ لڑیں یا نہ لڑیں صحیح ابن حبان کے حوالے سے یہ اضافہ ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حدیث بیان کی تو اکثر لوگ اپنی سواریوں سے اتر کر پیدل چلنے لگے تاکہ ان کے قدموں پر گرد غبار پڑے اور وہ اس فضیلت کے حق دار ہوں۔(صحیح ابن حبان:10/4764)