تشریح:
1۔فرائض کی دو قسمیں ہیں۔ © فرض عین © فرض کفایہ۔ فرض عین یہ ہے کہ اس کی ادائیگی بذات خود ہر مکلف مسلمان پر فرض ہوتی ہے اس فرض میں تخفیف تو ہو سکتی ہے مگر معاف نہیں ہوتا۔ مثلاً:نماز پنجگانہ وغیرہ فرض کفایہ یہ ہےکہ جس کی ادائیگی مجموعی طور پر مسلمانوں پر فرض ہوتی ہے مگر بعض کی ادائیگی سے دوسروں کو معاف کردیا جاتا ہے۔ اگر کوئی بھی ادا نہ کرے تو سب گناہ گار ہوتے ہیں مثلاً: نماز جنازہ وغیرہ 2۔جہاد فرض عین ہے یا فرض کفایہ اس کے متعلق ہم افراط و تفریط کا شکار ہیں۔ ہمارے ہاں بعض جہادی تنظیموں کا موقف ہے کہ حالات جیسے بھی ہوں جہاد بہر حال فرض عین ہے اور جس نے کبھی جہاد نہ کیا اس کا ایمان خطرے میں ہے اور اس کے بغیر وہ جنت کا حق دار نہیں ہے جبکہ اس کے برعکس کچھ لوگ جہاد کو فرض کفایہ تو کجا بلکہ اسے مستحب بھی نہیں کہتے اور جہاد کا ایسا مفہوم پیش کرتے ہیں جس سے جہاد کا تصور ہی مسخ ہو جاتا ہے ہمارے نزدیک جہاد بعض اوقات فرض عین ہو تا ہے اور بعض اوقات فرض کفایہ ہی رہتا ہے مندرجہ ذیل تین صورتوں میں جہاد فرض عین ہوتا ہے۔ ©جب دشمن مسلمانوں کے علاقے پر حملہ آور ہوجائے تو اس کے خلاف جہاد کرنا فرض عین ہے جیسا کہ امام ابن تیمیہ ؒکہتے ہیں ’’جب دشمن حملہ کردے تو اس کے خلاف جہاد کرنے کی فرضیت پر کسی اختلاف کی گنجائش نہیں کیونکہ دشمن سے اپنے دین عزت اور جان بچانے کے لیے جہاد کی فرضیت پر اجماع ہے۔‘‘ (مجموع الفتاوی:537/5) ©جب مسلمانوں کا امیر جہاد کرنے کا حکم عام دےتو اس امیر کی اطاعت کرتے ہوئے جہاد کے لیے نکلنا فرض عین ہے جیسا کہ امام بخاری ؒ کی پیش کردہ آیات اور حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔ امیر سے مراد شرعی سربراہ ہے یہ دونوں صورتوں بذات خود مستقل ہیں۔ ©دشمن سے دو بدو مقابلے کی صورت میں بھی جہاد فرض عین ہو جاتا ہے مثلاً:ایک آدمی پر جہاد فرض کفایہ ہے لیکن وہ جب میدان جنگ میں پہنچ جائے جہاں دشمن سے لڑائی جاری ہو تو اب یہی فرض کفایہ اس مسلمان کے حق میں فرض عین کی صورت اختیار کر جائے گا۔جہاد کے فرض عین کی یہ صورت نیم مستقل ہے کیونکہ اس میں بنیادی طور پر جہاد فرض کفایہ ہوتا ہے مگر میدان جہاد میں پہنچ کر فرض عین کی صورت اختیار کر جاتا ہے۔ بہر حال اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جب امام نفیرعام کا حکم دے تو اس وقت جہاد فرض عین ہو جاتا ہے۔ البتہ جہاد اپنے عمومی مفہوم میں ہر وقت فرض ہوتا ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر ؒ رقم طراز ہیں۔ تحقیقی طور پر یہ بات بھی ثابت ہے کہ کفارکےخلاف جہاد کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے خواہ وہ اپنے ہاتھ کے ساتھ جہاد کرے یا زبان کے ساتھ یا مال کے ساتھ یا اپنے دل کے ساتھ ان سے نبردآزماہو۔(فتح الباري:47/6) 3۔اس حدیث میں مطلق ہجرت کی نفی نہیں بلکہ فتح مکہ کے بعد مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کرنا منسوخ ہوا ہے کیونکہ جس مقام پر امور دین کو انجام نہ دیا جا سکتا ہو وہاں سے ہجرت کرنا اب بھی واجب ہے اور اس پر اجماع ہے۔