تشریح:
1۔غزوہ تبوک کے وقت کچھ لوگ ایک معقول عذر کی وجہ سے پیچھے رہ گئے تھے ۔رسول اللہ ﷺنےفرمایا: ’’ایسے معذور لوگ اجروثواب میں ہمارے ساتھ شریک ہیں کیونکہ ان کی خواہش تھی کہ ہمارے ساتھ شریک ہوتے لیکن عذر کی وجہ سے شریک نہیں ہوسکے،اس لیے ان کی نیت کی بنا پر انھیں ثواب میں شریک کیا گیا۔‘‘ 2۔ حدیث کے آخرمیں امام بخاری ؒنے ایک سند کا حوالہ دیا ہے،پھر فیصلہ کیا کہ پہلی سند جس میں موسیٰ کا واسطہ نہیں دوسری سند سے صحیح تر ہے جس میں موسیٰ کا واسطہ ہے۔ 3۔اس حدیث میں عذر عام ہے جو کبھی بیماری کی صورت میں ہوتا ہے اور کبھی سفر کی قدرت نہ ہونے کی شکل میں۔ اگرچہ صحیح مسلم کی روایت میں بیماری کی صراحت ہے تاہم اسے غالب صورت پر محمول کیا جائے گا۔ (صحیح مسلم، الإمارة، حدیث: 4932(1911) و فتح الباري:58/6)