تشریح:
1۔ حضرت حذیفہ ؓنے یہ بات اس وقت کہی جب حضرت عثمان ؓ کی طرف سے ولید بن عقبہ ؓ کو کوفہ گورنر مقرر کیا گیا اور وہ نماز پڑھنے میں بہت تاخیر کرتے تو تقوی شعار لوگ اول وقت اکیلے ہی نماز ادا کر لیتے ۔ لیکن ہمارے دور میں تو حکمران نماز کا نام ہی نہیں لیتے۔ حضرت حذیفہ ؓ کا مطلب یہ تھا کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں تو ہم ڈیڑھ ہزار ہونے پر نڈر اور بے خوف ہو گئے تھے اب ہزاروں کی تعداد میں ہیں اس کے باوجود حق بات کہنے سے ڈرتے ہیں اور بعض توڈر کے مارے اکیلے ہی نماز پڑھ لیتے ہیں۔ اور منہ سے کچھ نہیں کہہ سکتے۔ واللہ المستعان۔ 2۔تعداد میں اختلاف کی وجہ اس لیے ہے کہ شاید کئی ایک مقامات پر مردم شماری کی گئی ہو۔ بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ ڈیڑھ ہزار سے مراد مرد عورتیں اور بچے سب مسلمان ہیں اور چھ سو سے سات سو تک صرف مرد مراد ہیں۔ اور پانچ سو سے مراد وہ فوجی جوان ہیں جو میدان میں لڑنے والے تھے واللہ اعلم۔ امام بخاری ؒنے اس کو مردم شماری کے جواز کی دلیل بنایا ہے۔