تشریح:
1۔اس حدیث میں مکہ مکرمہ سے مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت مراد ہے۔پہلے جب مکہ مکرمہ دارالکفر تھا اور مسلمانوں کو اسلام کے مطابق زندگی گزارنے کی اجازت نہیں تھی تو وہاں سے ہجرت کرنا ضروری تھا لیکن جب مکہ فتح ہوگیا اور اسلامی حکومت کا حصہ بن گیا تو اب یہاں سے ہجرت کرنے کا سوال ہی باقی نہ رہا۔ 2۔اس کے یہ معنی ہرگز نہیں کہ ہجرت کا حکم ہی ختم کردیا گیا ہے بلکہ اب بھی جہاں مسلمانوں کو احکام اسلام پر عمل کرنے کی آزادی نہ ہوتو وہاں سے دارالسلام کی طرف ہجرت کرناضروری ہے بلکہ جب تک دنیا قائم ہے اور اس میں کفر و اسلام کی کشمکش موجود ہے ہجرت کا دروازہ بند نہیں ہوسکتا۔ لیکن ہجرت کے نام پرقتل وغارت یا لوٹ مار کی قطعاً اجازت نہیں جیسا کہ ہمارے ہاں اس نام سے بہت سی تحریکوں نے جنم لے رکھا ہے۔