تشریح:
1۔ کچھ اہل علم نے امام بخاری ؒ پر اعتراض کیا ہے کہ اس آخری حدیث کا عنوان سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ اس سے پہلے باب کے مطابق ہے، لہذا اسے وہاں ذکر کرنا چاہیے تھا۔ ہمارے رجحان کے مطابق یہ اعتراض برائے اعتراض ہے۔ دراصل امام بخاری ؒیہ بتانا چاہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب غزوہ تبوک سے واپس ہوئے تو دوران سفر میں کئی ایک واقعات وقوع پذیر ہوئے جنھیں حضرت جابر ؓنے بیان کیا ہے، مثلاً:©۔ دوران سفر میں حضرت جابر ؓ کا اونٹ تھک گیا تھا جسے آپ نے چھڑی ماری تو وہ تیز رفتار ہوگیا۔ ©۔ رسول اللہ ﷺ نے وہ حضرت جابر ؓسے خرید کرلیا تاکہ کسی بہانے ان کا تعاون کیاجائے۔ ©۔ مدینہ طیبہ پہنچ کر گھر جانے سے پہلے رسول اللہ ﷺ نے مسجد میں دورکعت ادا کیں۔ ©۔حضرت جابر ؓ جب آپ کو اونٹ دیے گئے تو آپ نے انھیں مسجد میں جا کر دورکعت پڑھنے کا حکم دیا۔ ©۔آخر میں رسول اللہ ﷺ نے اونٹ کی قیمت اداکی، کچھ زیادہ چاندی بھی دی اور اونٹ بھی واپس کردیا۔ یہ واقعات انفرادی طور پر مختلف راویوں نے بیان کیے ہیں۔ ان میں سے معاذعنبری نے اختصار کے ساتھ چندواقعات کو بیان کیاہے، چنانچہ انھوں نے حضرت جابر ؓ سے رسول اللہ ﷺ کا دو اوقیے چاندی کے عوض اونٹ خریدنا، مقام اصری پر اونٹ یا گائے ذبح کرکے ہم سفر حضرات کی دعوت کرنا، حضرت جابر ؓ کو مسجد میں جاکر دورکعت پڑھنے کی تلقین کرنا اور آخر میں اونٹ کی قیمت ادا کرنا بیان کیا ہے۔ مقصد یہ ہےکہ سفر سے واپسی پر مسجد میں جاکر شکرانے کے دو نفل پڑھنا مسنون عمل ہے جیسا کہ سفر سے بہ خیریت لوٹنے پر احباب کرام کی دعوت کرنا بھی سنت نبوی ہے۔ 2۔اس سلسلے میں حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کا طرز عمل بھی قابل تحسین ہے کہ اقامت کی حالت میں ان کی عادت بکثرت روزے رکھنے کی تھی لیکن جب سفر سے واپس آتے تو چند دن اس خیال سے روزے نہیں رکھتے تھے کہ دوست واحباب ملاقات کے لیے آئیں گے تو ان کی ضیافت ضروری ہے اور یہ بھی ضروری ہے کہ میزبان مہمان کے ساتھ کھائے، اس بنا پر آپ چند دن کے لیے نفلی روزے مؤخر کردیتے تھے۔۔۔ رضي اللہ تعالیٰ عنه ۔۔۔