تشریح:
1۔ ایک حدیث میں ہے کہ وہ پیالہ بہت بڑا اور عمدہ قسم کاتھا جو بہترین لکڑی سے تیار شدہ تھا۔ (صحیح البخاري، الأشربة، حدیث:5638) اس حدیث کے آخر میں ہے کہ اس میں لوہے کا ٹکڑا تھا۔ حضرت انس ؓنے اس کی جگہ سونے یا چاندی کا کڑا لگانے کاارادہ کیا تو حضرت ابوطلحہ ؓنے انھیں منع کردیا اور فرمایا:اس میں کوئی تبدیلی نہ کرو بلکہ اسی حالت میں رہنے دو جس حالت میں رسول اللہ ﷺ کے پاس تھا، چنانچہ حضرت انس ؓ اسی حالت میں رہنے دیا۔ (صحیح البخاري، الأشربة، حدیث:5638)حضرت حجاج بن حسان کہتے ہیں:ہم ایک مرتبہ حضرت انس ؓ کے پاس تھے انھوں نے ایک برتن منگوایا جسے تین لوہےکے ٹکڑے لگے ہوئے تھے اور اس میں لوہے کا کڑا بھی تھا، اسے آپ نے سیاہ غلاف سے نکالا اور اس میں پانی ڈال کر ہمارے پاس لایا گیا، ہم نے اس سے پانی پیا، اپنے سروں اور مونہوں پر چھڑکا اور رسول اللہ ﷺ پر درود بھی پڑھا۔ (مسند أحمد187/3) 2۔ حافظ ابن حجر ؒنے علامہ قرطبی ؒ کے حوالے سے لکھا ہے:امام بخاری ؒ فرماتے ہیں:میں نے بصرہ میں وہ پیالہ کسی کے پاس دیکھا اور اس سے پانی نوش کیا۔ اس نے وہ پیالہ نضر بن انس کو ملنے والی جائیداد سے آٹھ لاکھ میں خریدا تھا۔ (فتح الباري:124/10) وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ رسول اللہ ﷺ کا یہ پیالہ بھی معدوم ہوگیا یا جنگوں اور فتنوں کی نظر ہوکرضائع ہوگیا۔ 3۔ امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی چھوڑی ہوئی اشیاء میں سے کوئی چیز بھی تقسیم نہیں کی گئی بلکہ انھیں تبرک کے طور پر رکھاگیا۔ واللہ أعلم۔