باب:مال غنیمت میں سے پانچواں حصہ ادا کرنا دین ایمان میں داخل ہے
)
Sahi-Bukhari:
One-fifth of Booty to the Cause of Allah (Khumus)
(Chapter: The payment of Khumus is a part of religion)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3116.
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ جب وفد عبدالقیس آیا توانھوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ !ہم اس ربیعہ قبیلے سے تعلق رکھنے والے ہیں۔ ہمارے اور آپ کے درمیان کفار مضر حائل ہیں۔ ہم حرمت والے مہینوں کے علاوہ آپ کے پاس حاضر نہیں ہوسکتے۔ ہمیں کوئی ایسا(جامع) حکم بتادیں جس پر ہم بھی عمل کریں اور اپنے پیچھے رہنے والوں کو بھی اس کی دعوت دیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: "میں تمھیں چارچیزوں کاحکم دیتا ہوں اور چار باتوں سے منع کرتا ہوں: اللہ پر ایمان لانا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ایک ہونے کی گواہی دی جائے۔ آپ نے اپنے ہاتھ سے ایک گرہ لگائی(کہ ایک تو یہ ہے اور باقی یہ ہیں:)۔ ۔ ۔ نماز پڑھنا، زکاۃ ادا کرنا، ماہ رمضان کے روزے رکھنا اور جو تم مال غنیمت حاصل کرو اس سے خمس اداکرنا اورتمھیں کدو، فقیر، حنتم اورمزفت میں نبیذ بنانے سے منع کرتا ہوں۔ "
تشریح:
1۔ (الدباء) کدو کو کرید کر برتن بنانا (نقير) کھجور کی لکڑی کو کرید کر برتن بنانا(حنتم) سبز مٹکا اور (مزفت) اس برتن کو کہتے ہیں جسے تارکول سے پالش کیا گیا ہو۔ ان برتنوں میں بہت جلد نشہ پیدا ہو جاتا تھا اور یہ عرب میں خصوصی طور پر شراب کے لیے ہی استعمال ہوتے تھے اس لیے شروع شروع میں نبی ﷺ نے ان برتنوں سے بھی منع کردیا تاکہ شراب کا خیال بھی نہ آئے اور نبیذ کے استعمال میں اگر تھوڑی بہت دیر ہوجائے تو نشہ پیدا نہ ہو۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب ترک شراب کی عادت پختہ ہو گئی تو آپ نے ان برتنوں کے استعمال کی اجازت دے دی۔ 2۔امام بخاری ؒ نے کتاب الایمان (باب نمبر: 40)میں اس حدیث پر ان الفاظ میں عنوان قائم کیا ہے۔ (باب أداء الخمس من الإيمان) ’’خمس کا ادا کرنا ایمان کا حصہ ہے۔‘‘ دراصل امام بخاری ؒ ایمان میں کمی بیشی کے قائل ہیں اور دلیل کے طور پر وہاں یہ عنوان قائم تھا اس مقام پر خمس کی اہمیت بتانا مقصود ہے کہ خمس کا ادا کرنا دین اسلام کا حصہ ہے اگر اسے ادا نہ کیا جائے تو دین اسلام ناقص رہتا ہے۔ 3۔ امام بخاری ؒ کے نزدیک ایمان دین اسلام باہم مترادف ہیں اور انھیں ایک دوسرے کی جگہ پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ واللہ اعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2979
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3095
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3095
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3095
تمہید کتاب
غزوہ بدر کے اختتام پر اس قسم کی صورتحال پیداہو گئی کہ جس فریق نے غنیمت کا مال لوٹا وہ اپنے آپ ہی کو اس کا حقدار سمجھنے لگا۔ کچھ لوگ کفار کا تعاقب کرنے والے تھے انھوں نے دعوی کیا کہ ہم بھی مال غنیمت میں برابر کے شریک ہیں کیونکہ اگر ہم کفار کا تعاقب نہ کرتے تو کفار واپس آکر حملہ کر سکتے تھے جس سے فتح کا شکست میں بدل جانا ممکن تھا کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت پر مامور تھے۔ انھوں نے کہا: ہم بھی اس مال میں برابر کے حصے دار ہیں۔کیونکہ اگر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت نہ کرتے تو آپ کوکوئی حادثہ پیش آسکتا تھا جو جنگ کا پانسہ پلٹنے میں بنیادی کردار ادا کرتا۔ لیکن جن لوگوں نے مال غنیمت پر قبضہ کیا وہ ایسی باتیں قبول کرنے کے لیے تیار نہ تھے لہٰذا مجاہدین میں کشیدگی کا پیدا ہونا ایک طبعی امر تھا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے بھی وحی الٰہی کی آمد تک خاموشی اختیار کیےرکھی۔ بالآخراللہ تعالیٰ نے فیصلہ فرمایا :کہ دوران جنگ میں ملنے والے تمام اموال اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہیں ان کے متعلق جو فیصلہ ہوگا۔ وہ سب کو تسلیم کرنا پڑے گا۔ پھر اس کی تفصیل نازل ہوئی، کہ مال غنیمت کا پانچواں حصہ اللہ کے لیے اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے قرابت داروں،مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے۔(الانفال:8/41)دراصل میدان جنگ میں حاصل ہونے والے مال کی چند قسمیں حسب ذیل ہیں۔1۔مال غنیمت:۔مجاہدین کے قتال کے بعد کفار کی شکست کی صورت میں وہاں سے جو مال حاصل ہو اسے مال غنیمت کہا جاتا ہے۔ یہ پہلی امتوں پر حرام تھا بلکہ آسمان سے آگ آکر اسے جلا دیتی تھی مگر اس امت پر اسے حلال کردیا گیا۔ قرآن کریم کی صراحت کے مطابق ایسے مال کے پانچ حصے ہوں گے، جن میں سے چار مجاہدین میں تقسیم ہوں گے اور ایک حصہ اللہ اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرابت داروں ، مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے جو بیت المال میں جائے گا۔2۔مال فے:۔اس میں ہر وہ مال شامل ہے جو مسلمانوں کو لڑے ے بغیر مل جائے۔اس کے متعلق قرآنی فیصلہ یہ ہے کہ وہ سارے کا سارا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہے۔(اور آپ کے بعد شرعی حاکم کے لیے ہے)اور وہ اپنی صوابدید کے مطابق اسے خرچ کرنے کے مجاز ہیں۔3۔مال سلب:۔ اس سے مراد وہ مال ہے جو ایک مجاہد مقتول دشمن کے جسم سے اتارتا ہے۔ اس کے متعلق شرعی فیصلہ ہے کہ وہ قاتل مجاہد کو دیا جائے لیکن حاکم وقت صوابدیدی اختیاربد ستور باقی رہتا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ بدر میں ابوجہل کے سازوسامان کے متعلق موقف اختیار کیا تھا۔4۔ایسی اشیاء جن کا تعلق غذا سے ہو یا ایسی چیز یں جو عموماً غذا کا فائدہ دیتی ہوں۔اسی طرح جانوروں کی گھاس وغیرہ ایسی تمام اشیاء کو تقسیم سے پہلے ہی استعمال کرنے کی اجازت ہوتی ہے ۔ اس میں حاکم وقت سے اجازت لینا ضروری نہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بڑے عنوان کے تحت ایسی احادیث جمع کی ہیں جن کا تعلق مال غنیمت کے خمس سے ہے۔مال غنیمت کے متعلق اس امر پر اتفاق ہے کہ اس کے چار حصے مجاہدین کے لیے ہیں۔ اس سےدو حصے گھوڑے کے لیے اور ایک حصہ مجاہد کے لیے مختص ہوتا ہے۔ اگر کسی کے پاس گھوڑا نہ ہو تو وہ صرف ایک حصے کا حق دار ہے۔ واضح رہے کہ چار حصے ان مجاہدین میں تقسیم کیے جاتے جو جنگ میں شریک ہوتے۔ باقی پانچواں حصہ یعنی خمس کے لیے قرآن کریم نے چھ مصرف بیان کیے ہیں ان میں اللہ کا ذکر تو بطور تبرک ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جو حصہ ہے وہ آپ کی گھریلو ضروریات کے لیے مقرر ہوا ۔آپ کی خانگی ضروریات سے جو بچتا اسے جہاد کی ضروریات میں صرف کردیا جاتا۔آپ کی وفات کے بعد یہ مصرف ختم ہوگیا۔ اس خمس کا ایک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قرابت داروں ، یعنی بنو ہاشم کے لیے تھا۔ آپ کی وفات کے بعد ان کا حصہ بھی ختم ہو گیا۔ اب تین مصرف باقی ہیں۔یعنی یتیموں مسکینوں اور مسافروں کی ضروریات کو پورا کرنا۔ حاکم وقت کو ان کے متعلق بھی اختیار کہ جسے چاہے دے سکتا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اسی موقف کو اختیار کرکے امام مالک کی تائید کی ہے اور اس کے لیے چار حسب ذیل عنوان قائم کیے ہیں۔1۔پانچواں حصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مساکین کی ضروریات پورا کرنے کے لیے ہے۔2۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے مالک نہیں بلکہ آپ کو صرف تقسیم کرنے کا اختیار تھا۔3۔خمس مسلمانوں کی ضروریات کے لیے ہے۔4۔خمس حاکم وقت کے لیے ہے۔ان سب عنوانات کا ایک ہی مقصد ہے کہ حاکم وقت اپنی صوابدید کے مطابق خرچ کرنے کا مجاز ہے اس خمس کا مالک نہیں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے خمس کے احکام و مسائل بیان کرنے کے لیےپینسٹھ(65)متصل احادیث بیان کی ہیں۔اور ان پر بیس(20) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن کی تفصیل آئندہ بیان ہو گی۔ایک اہم مسئلہ جس کی طرف توجہ دینا ضروری ہے کہ دور نبوی میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین رضا کارانہ طور پر اسے فریضہ سمجھ کر جہاد پر جاتے اور جنگ میں شریک ہو تے تھے اس سلسلے میں سواری اور ہتھیاروں کا اہتمام بھی خود کرتے تھے بلکہ بعض اوقات ذاتی خدمت کے لیے اپنے خرچے پر مزدورساتھ لے جاتے۔ ان خدمات کے عوض ان مجاہدین کو مال غنیمت سے حصہ ملتا تھا مگر دور حاضر میں فوج کا محکمہ ہی الگ ہے۔ اس محکمے میں شامل فوجی باقاعدہ تنخواہ دار ہوتے ہیں۔ ایام جنگ کے علاوہ بھی انھیں تنخواہ ملتی رہتی ہے۔ان کے لیے اسلحہ اور سواری کا اہتمام بھی حکومت کے ذمے ہوتا ہے۔ ایسے حالات میں عام مسلمانوں پر جہاد کی فرضیت ساقط ہے اور تنخواہ دار ہونے کی وجہ سے ان فوجی اور مجاہدین میں مال غنیمت کی تقسیم کا قصہ بھی ختم ہوا۔امیر جیش یعنی چیف کمانڈر حصہ بھی ختم ہوا کیونکہ وہ بھی سر کاری خزانے سے بھاری تنخواہ وصول کرتا ہے فقراء کی ضرورتوں کو پورا کرنا ویسے ہی اسلامی حکومت کا فریضہ ہوتا ہے۔ ان مسائل میں اجتہاد کی ضرورت ہے کہ موجودہ دور میں ان شرعی نصوص کا انطباق کیسے ہو؟ ضرورت ہے کہ ان جیسے بیسیوں مسائل کے لیے اہل علم پر مشتمل ایک مجلس شوریٰ کا اہتمام کیا جائے۔ کاش کہ مسلک حقہ کی علمبردار جماعت اہل حدیث اس طرف توجہ دے اور جدید مسائل کو حل کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے وقت کی ضرورت کے پیش نظر خمس اور جزیے وغیرہ کے متعلق الگ الگ دو بڑے عنوان قائم کیے ہیں۔ حالانکہ ان کا تعلق جہاد ہی سے ہے۔چونکہ خمس اور جزیے کے مسائل کی بہت سی قسمیں ہیں جو تشریح و تفصیل کا تقاضا کرتی ہیں۔ اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان کی افادیت و اہمیت کے پیش نظر انھیں الگ عنوان کے تحت بیان کیا ہے۔ قارئین سے استدعا ہے کہ وہ ہماری تشریحات کو مد نظر رکھتے ہوئے پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دینی معاملات میں بصیرت عطا فرمائےپھر ان پر عمل کی توفیق دے۔آمین یا رب العالمین ۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ جب وفد عبدالقیس آیا توانھوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ !ہم اس ربیعہ قبیلے سے تعلق رکھنے والے ہیں۔ ہمارے اور آپ کے درمیان کفار مضر حائل ہیں۔ ہم حرمت والے مہینوں کے علاوہ آپ کے پاس حاضر نہیں ہوسکتے۔ ہمیں کوئی ایسا(جامع) حکم بتادیں جس پر ہم بھی عمل کریں اور اپنے پیچھے رہنے والوں کو بھی اس کی دعوت دیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: "میں تمھیں چارچیزوں کاحکم دیتا ہوں اور چار باتوں سے منع کرتا ہوں: اللہ پر ایمان لانا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ایک ہونے کی گواہی دی جائے۔ آپ نے اپنے ہاتھ سے ایک گرہ لگائی(کہ ایک تو یہ ہے اور باقی یہ ہیں:)۔ ۔ ۔ نماز پڑھنا، زکاۃ ادا کرنا، ماہ رمضان کے روزے رکھنا اور جو تم مال غنیمت حاصل کرو اس سے خمس اداکرنا اورتمھیں کدو، فقیر، حنتم اورمزفت میں نبیذ بنانے سے منع کرتا ہوں۔ "
حدیث حاشیہ:
1۔ (الدباء) کدو کو کرید کر برتن بنانا (نقير) کھجور کی لکڑی کو کرید کر برتن بنانا(حنتم) سبز مٹکا اور (مزفت) اس برتن کو کہتے ہیں جسے تارکول سے پالش کیا گیا ہو۔ ان برتنوں میں بہت جلد نشہ پیدا ہو جاتا تھا اور یہ عرب میں خصوصی طور پر شراب کے لیے ہی استعمال ہوتے تھے اس لیے شروع شروع میں نبی ﷺ نے ان برتنوں سے بھی منع کردیا تاکہ شراب کا خیال بھی نہ آئے اور نبیذ کے استعمال میں اگر تھوڑی بہت دیر ہوجائے تو نشہ پیدا نہ ہو۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب ترک شراب کی عادت پختہ ہو گئی تو آپ نے ان برتنوں کے استعمال کی اجازت دے دی۔ 2۔امام بخاری ؒ نے کتاب الایمان (باب نمبر: 40)میں اس حدیث پر ان الفاظ میں عنوان قائم کیا ہے۔ (باب أداء الخمس من الإيمان) ’’خمس کا ادا کرنا ایمان کا حصہ ہے۔‘‘ دراصل امام بخاری ؒ ایمان میں کمی بیشی کے قائل ہیں اور دلیل کے طور پر وہاں یہ عنوان قائم تھا اس مقام پر خمس کی اہمیت بتانا مقصود ہے کہ خمس کا ادا کرنا دین اسلام کا حصہ ہے اگر اسے ادا نہ کیا جائے تو دین اسلام ناقص رہتا ہے۔ 3۔ امام بخاری ؒ کے نزدیک ایمان دین اسلام باہم مترادف ہیں اور انھیں ایک دوسرے کی جگہ پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ واللہ اعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابو نعمان نے بیان کیا‘ کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا‘ ان سے ابو حمزہ ضبعی نے بیان کیا‘ انہوں نے ابن عباس ؓ سے سنا‘ وہ بیان کرتے تھے کہ قبیلہ عبدالقیس کا وفد (دربار رسالت میں) حاضر ہوا اور عرض کی یارسو ل اللہ! ہمارا تعلق قبیلہ ربیعہ سے ہے اور قبیلہ مضر کے کفار ہمارے اور آپ کے بیچ میں بستے ہیں۔ (اس لئے ان کے خطرے کی وجہ سے ہم لوگ) آپ کی خدمت میں صرف ادب والے مہینوں میں حاضر ہو سکتے ہیں۔ آپ ہمیں کوئی ایسا واضح حکم فر دیں جس پر ہم خود بھی مضبوطی سے قائم رہیں اور جو لوگ ہمارے ساتھ نہیں آ سکے ہیں انہیں بھی بتا دیں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا میں تمہیں چار چیزوں کا حکم دیتا ہوں اور چار چیزوں سے روکتا ہوں (میں تمہیں حکم دیتا ہوں) اللہ پر ایمان لانے کا کہ اللہ کے سوا اور کوئی معبود نہیں‘ نماز قائم کرنے کا‘ زکوٰۃ دینے کا‘ رمضان کے روزے رکھنے کا‘ اور اس بات کا کہ جو کچھ بھی تمہیں غنیمت کا مال ملے۔ اس میں پانچواں حصہ (خمس) اللہ کے لئے نکال دو اور تمہیں میں دبا‘ نقیر‘ حنتم اور مزفت کے استعمال سے روکتا ہوں۔
حدیث حاشیہ:
دبا کدو کی تونبی اور نقیر کریدی لکڑی کے برتن‘ حنتم سبز لاکھی برتن‘ اور مزفت روغنی برتن‘ یہ سب شراب رکھنے کیلئے استعمال کئے جاتے تھے۔ اس لئے ان سب کو دور پھینک دینے کا آپ ﷺ نے حکم فرمایا۔ خمس کی ادائیگی کاخاص حکم دیا۔ یہی باب سے وجہ مناسبت ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Abbas (RA): The delegates of the tribe of 'Abdul-Qais came and said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! We are from the tribe of Rabi'a, and there is the infidels of the tribe of Mudar intervening between you and us, so we cannot come to you except in the Sacred Months. So please order us some instructions that we may apply it to ourselves and also invite our people whom we left behind us to observe as well." The Prophet (ﷺ) said, "I order you (to do) four (things) and forbid you (to do) four: I order you to believe in Allah, that is, to testify that None has the right to be worshipped but Allah (the Prophet (ﷺ) pointed with his hand); to offer prayers perfectly; to pay Zakat; to fast the month of Ramadan, and to pay the Khumus (i.e. one-fifth) of the war booty to Allah and I forbid you to use Ad-dubba', An-Naqir, Al-Hantam and Al-Muzaffat (i.e. utensils used for preparing alcoholic drinks)." (See Hadith No. 50, Vol. 1).