قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: صفات وشمائل

‌صحيح البخاري: كِتَابُ فَرْضِ الخُمُسِ (بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ: «أُحِلَّتْ لَكُمُ الغَنَائِمُ»)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَقَالَ اللَّهُ تَعَالَى: {وَعَدَكُمُ اللَّهُ مَغَانِمَ كَثِيرَةً تَأْخُذُونَهَا، فَعَجَّلَ لَكُمْ هَذِهِ} [الفتح: 20] «وَهِيَ لِلْعَامَّةِ حَتَّى يُبَيِّنَهُ الرَّسُولُ ﷺ»

3122. حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِنَانٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا سَيَّارٌ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ الفَقِيرُ، حَدَّثَنَا جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أُحِلَّتْ لِي الغَنَائِمُ»

مترجم:

ترجمۃ الباب:

اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ نے تم سے بہت سی غنیمتوں کا وعدہ کیا ہے جس میں سے یہ ( خیبر کی غنیمت ) پہلے ہی دے دی ہے ۔ ‘ ‘ تو یہ غنیمت کا مال ( قرآن کی روسے ) سب لوگوں کا حق ہے مگر آنحضرت ﷺنے بیان فرما دیا کہ کون کون اس کے مستحق ہیں ۔ تشریح : یعنی قرآن مجمل ہے اس کی روسے تو ہر مال غنیمت میں ساری دنیا کے مسلمانوں کا حصہ ہوگا۔ مگر حدیث شریف سے اس کی تشریح ہوگئی کہ ہر لوٹ کا مال ان لوگوں کا حق ہوگا جو لڑے اور لوٹ حاصل کی‘ اس میں سے پانچواں حصہ حاکم وقت مسلمانوں کے عمومی مصالح کے لئے نکال لے گا۔ امام بخاری رحمہ اللہ کی اس تقریر سے ان لوگوں کا ردہوا جو صرف قرآن شریف کو عمل کرنے کے لئے کافی سمجھتے ہیں کہ حدیث کی کوئی ضرورت نہیں۔ ایسے لوگ قرآن مجید کے دوست نہیں کہے جاسکتے بلکہ ان کو قرآن مجید کا دشمن نمبر اول سمجھنا چاہئے جس میں صاف کہا گیا ہے وانزلنا اليک الذکر لتبن للناس ( النحل: 44 ) یعنی ہم نے اس کتاب قرآن مجید کو اے رسول! تیری طرف اتارا ہے تاکہ تم لوگوں کے سامنے اسے اپنی خداداد تشریح کے مطابق پیش کردو۔ آپ کی تشریح وتبیین کا دوسرا نام حدیث ہے۔ جس کے بغیر قرآن مجید اپنے مطلب میں مکمل نہیں کہا جاسکتا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریح بھی وحی الیٰ ہی کے ذیل میں جووہ۔ وما ينطق عن الھوي ان ھو الا وحي يوحي ( النجم:3,4 ) کے تحت ہے۔ فرق اتنا ہی ہے کہ قرآن مجید وحی جلی اورحدیث نبوی وحی خفی ہے جسے وحی غیر متلو کہا جاتا ہے۔

3122.

حضرت جابر بن عبداللہ    ؓ سے روایت ہے،     انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’میرے لیے غنیمت کے مال حلال کردیے گئے ہیں۔‘‘