قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ فَرْضِ الخُمُسِ (بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ: «أُحِلَّتْ لَكُمُ الغَنَائِمُ»)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَقَالَ اللَّهُ تَعَالَى: {وَعَدَكُمُ اللَّهُ مَغَانِمَ كَثِيرَةً تَأْخُذُونَهَا، فَعَجَّلَ لَكُمْ هَذِهِ} [الفتح: 20] «وَهِيَ لِلْعَامَّةِ حَتَّى يُبَيِّنَهُ الرَّسُولُ ﷺ»

3124. حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ العَلاَءِ، حَدَّثَنَا ابْنُ المُبَارَكِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: غَزَا نَبِيٌّ مِنَ الأَنْبِيَاءِ، فَقَالَ لِقَوْمِهِ: لاَ يَتْبَعْنِي رَجُلٌ مَلَكَ بُضْعَ امْرَأَةٍ، وَهُوَ يُرِيدُ أَنْ يَبْنِيَ بِهَا؟ وَلَمَّا يَبْنِ بِهَا، وَلاَ أَحَدٌ بَنَى بُيُوتًا وَلَمْ يَرْفَعْ سُقُوفَهَا، وَلاَ أَحَدٌ اشْتَرَى غَنَمًا أَوْ خَلِفَاتٍ وَهُوَ يَنْتَظِرُ وِلاَدَهَا، فَغَزَا فَدَنَا مِنَ القَرْيَةِ صَلاَةَ العَصْرِ أَوْ قَرِيبًا مِنْ ذَلِكَ، فَقَالَ لِلشَّمْسِ: إِنَّكِ مَأْمُورَةٌ وَأَنَا مَأْمُورٌ اللَّهُمَّ احْبِسْهَا عَلَيْنَا، فَحُبِسَتْ حَتَّى فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْهِ، فَجَمَعَ الغَنَائِمَ، فَجَاءَتْ يَعْنِي النَّارَ لِتَأْكُلَهَا، فَلَمْ تَطْعَمْهَا فَقَالَ: إِنَّ فِيكُمْ غُلُولًا، فَلْيُبَايِعْنِي مِنْ كُلِّ قَبِيلَةٍ رَجُلٌ، فَلَزِقَتْ يَدُ رَجُلٍ بِيَدِهِ، فَقَالَ: فِيكُمُ الغُلُولُ، فَلْيُبَايِعْنِي قَبِيلَتُكَ، فَلَزِقَتْ يَدُ رَجُلَيْنِ أَوْ ثَلاَثَةٍ بِيَدِهِ، فَقَالَ: فِيكُمُ الغُلُولُ، فَجَاءُوا بِرَأْسٍ مِثْلِ رَأْسِ بَقَرَةٍ مِنَ الذَّهَبِ، فَوَضَعُوهَا، فَجَاءَتِ النَّارُ، فَأَكَلَتْهَا ثُمَّ أَحَلَّ اللَّهُ لَنَا الغَنَائِمَ رَأَى ضَعْفَنَا، وَعَجْزَنَا فَأَحَلَّهَا لَنَا

مترجم:

ترجمۃ الباب:

اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ نے تم سے بہت سی غنیمتوں کا وعدہ کیا ہے جس میں سے یہ ( خیبر کی غنیمت ) پہلے ہی دے دی ہے ۔ ‘ ‘ تو یہ غنیمت کا مال ( قرآن کی روسے ) سب لوگوں کا حق ہے مگر آنحضرت ﷺنے بیان فرما دیا کہ کون کون اس کے مستحق ہیں ۔ تشریح : یعنی قرآن مجمل ہے اس کی روسے تو ہر مال غنیمت میں ساری دنیا کے مسلمانوں کا حصہ ہوگا۔ مگر حدیث شریف سے اس کی تشریح ہوگئی کہ ہر لوٹ کا مال ان لوگوں کا حق ہوگا جو لڑے اور لوٹ حاصل کی‘ اس میں سے پانچواں حصہ حاکم وقت مسلمانوں کے عمومی مصالح کے لئے نکال لے گا۔ امام بخاری رحمہ اللہ کی اس تقریر سے ان لوگوں کا ردہوا جو صرف قرآن شریف کو عمل کرنے کے لئے کافی سمجھتے ہیں کہ حدیث کی کوئی ضرورت نہیں۔ ایسے لوگ قرآن مجید کے دوست نہیں کہے جاسکتے بلکہ ان کو قرآن مجید کا دشمن نمبر اول سمجھنا چاہئے جس میں صاف کہا گیا ہے وانزلنا اليک الذکر لتبن للناس ( النحل: 44 ) یعنی ہم نے اس کتاب قرآن مجید کو اے رسول! تیری طرف اتارا ہے تاکہ تم لوگوں کے سامنے اسے اپنی خداداد تشریح کے مطابق پیش کردو۔ آپ کی تشریح وتبیین کا دوسرا نام حدیث ہے۔ جس کے بغیر قرآن مجید اپنے مطلب میں مکمل نہیں کہا جاسکتا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریح بھی وحی الیٰ ہی کے ذیل میں جووہ۔ وما ينطق عن الھوي ان ھو الا وحي يوحي ( النجم:3,4 ) کے تحت ہے۔ فرق اتنا ہی ہے کہ قرآن مجید وحی جلی اورحدیث نبوی وحی خفی ہے جسے وحی غیر متلو کہا جاتا ہے۔

3124.

حضرت ابوہریرہ   ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’پہلے انبیاء ؑ میں سے ایک نبی نے جہاد کیا،  تو انھوں نے اپنی قوم سے فرمایا کہ میرے ساتھ وہ شخص نہ جائے جس نے کسی عورت سے نکاح تو کیا ہولیکن ابھی تک رخصتی نہ ہوئی ہو جبکہ وہ رخصتی کا خواہاں ہو۔  اور نہ وہ شخص جائے جس نے گھر کی چار دیواری تو کی ہو لیکن ابھی تک چھت نہ ڈالی ہو۔  اور نہ وہ شخص ہی جائے جس نے حاملہ بکریاں اور اونٹنیاں خریدی ہوں اور وہ ان کے بچے جننے کا منتظر ہو۔ (یہ کہہ کر) پھر وہ جہاد کے لیے روانہ ہوئے اور ایک گاؤں کے قریب اس وقت پہنچے کہ عصر کا وقت قریب تھا یا ہوچکا تھا۔ انھوں نے آفتاب سے کہا: تو بھی اللہ کا محکوم ہے اور میں بھی اللہ کا تابع فرمان ہوں،  پھر یوں دعا کی: اے اللہ! اسے ہمارے لیے غروب ہونے سے روک دے، چنانچہ اسے روک لیا گیا حتیٰ کہ اللہ نے ان کو فتح سے سرفراز فرمایا۔ پھر انھوں نے مال غنیمت کو اکھٹا کیا اور آگ آئی تاکہ اسے کھائے (بھسم کردے) لیکن آگ نے اسے نہ کھایا (نہ جلایا) اس (نبی ؑ) نے کہا کہ تم میں سے کسی نے خیانت کی ہے، لہذا اب ہر قبیلے کا ایک ایک شخص مجھ سے بیعت کرے، چنانچہ ایک شخص کا ہاتھ ان کے ہاتھ سے چپک گیا تو اس (نبی ؑ) نے فرمایا: تیرے قبیلے والوں نے چوری کی ہے۔ اب تمہارے قبیلے کے سب لوگ مجھ سے بیعت کریں۔ پھر دو یا تین آدمیوں کے ہاتھ ان کے ہاتھ سے چپک گئے۔ اس کے بعد نبی نے فرمایا کہ تم نے ہی خیانت کا ارتکاب کیا ہے، چنانچہ وہ سونے کا سرلائے جو گائے کے سرجیسا تھا۔ اس کو انھوں نے رکھا تو آگ نے آکر مال غنیمت کھالیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے مال غنیمت حلال کردیا۔ اس نے ہماری کم زوری اور عاجزی کو دیکھا اس لیے ہماری خاطر مال غنیمت کو حلال قراردے دیا۔‘‘