تشریح:
1۔ اس عنوان میں غسل حیض کی مخصوص کیفیت بتلانا مقصود ہے، یعنی ایسا غسل جو دیگر ہر طرح کے غسل سے ممتاز ہو، کیونکہ نفس غسل تو معروف ہے، اس کے بتانے کی ضرورت نہیں۔ ایک دوسری حدیث میں اس کی تفصیل بایں الفاظ ہے ’’ تم میں سے ہر عورت غسل کے لیے پانی اور بیری کے پتے لے کر طہارت حاصل کرے۔ اچھی طرح غسل کرے پھر اپنے سر پر پانی ڈالے اور اسے خوب اچھی طرح ملے یہاں تک کہ پانی بالوں کی جڑوں تک پہنچ جائے۔ پھر اپنے اوپر پانی بہالے فارغ ہو کر کستوری لگا ہوا روئی کا ٹکڑا لے اور اسے خون آلود جگہوں پر لگائے۔۔۔‘‘(صحیح مسلم، الطھارة، حدیث:750۔ (332) واضح رہے کہ امام بخاری ؒ کے نزدیک غسل جنابت اور غسل حیض دونوں ایک طرح کے نہیں، بلکہ ان دونوں میں فرق ہے۔ اس بنا پر اس عنوان میں غسل حیض کی الگ کیفیت بتائی گئی ہے۔ آئندہ ابواب میں بھی اس فرق کی طرف ہی اشارہ فرمائیں گے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ شرح تراجم بخاری میں لکھتے ہیں کہ اس مقام پر سوال نفس غسل سے نہیں، کیونکہ یہ تو معروف و معلوم تھا، سوال صرف غسل حیض کی خاص کیفیت سے ہے۔ 2۔ بعض حضرات نے اسے غَسل یعنی غین کے فتحہ سے پڑھا ہے، لیکن یہ درست نہیں کیونکہ یہ تو باب رقم (9) حدیث (308) کے تحت آچکا ہے، ہاں! اس کی یہ توجیہ کی جا سکتی ہے کہ پہلے باب میں خون حیض سے ملوث کپڑوں کو دھونے کا بیان تھا اور اس باب میں بدن پر لگے ہوئے خون کو دھونے کا ذکرہے۔ جیسا کہ احادیث کے الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس مقام پر محیض مصدر میمی کے نجائے اسم مکان ہو۔ یعنی جائے حیض (شرمگاہ) دھونے کا بیان، اس مقام پر حسب عادت علامہ عینی ؒ کی بھی سنتے جائیے، فرماتے ہیں کہ اس عنوان کا درحقیقت چنداں فائدہ نہیں، کیونکہ یہ بات تو پہلے بھی ذکر ہو چکی ہے اور روایت بھی وہی ذکر ہے جو پہلے عنوان میں لائے تھے، ہاں طریق روایت میں فرق ضرورہے۔ (عمدة القاري:140/3) 3۔ بعض شارحین نے (مِسك) کو (مَسك) پڑھا ہے جس کا ترجمہ چمڑا ہے یا بکرے اور بھیڑکے چمڑے کا وہ ٹکڑا جس پر اون ہو۔ اسے خون والی جگہ پر ملنے سے خون کی نجاست اور بو دور ہو جائے گی۔ ان حضرات کا کہنا ہے کہ مَسک ایک گراں قیمت چیز ہے، بظاہر اتنی وافر بھی نہیں تھی کہ ایسے مواقع پر استعمال کی جاتی، لیکن ان حضرات کایہ قیاس درست نہیں۔ اولاً انسانی جسم کوئی زنگا رآلود لوہا نہیں کہ اسے ریگ مار سے رگڑ کر صاف کرنے کی ضرورت پیش آئے، اس پر خون کی اس قدر تہ کیونکرجم سکتی ہے، جبکہ قضائے حاجت کے بعد وقتاً فوقتاً استنجا بھی کیا جاتا ہے۔ ہر عورت ان ایام میں نظافت کا خیال رکھتی ہے، ثانیا ً اون سے نہ تو جنابت دور ہو سکتی ہے اور نہ اس سے بوہی کا ازالہ ہوتا ہے۔ ثالثاًً اہل عرب کے ہاں کستوری نایاب چیز نہ تھی، بلکہ وافر مقدار میں دستیاب تھی اور اس کا استعمال بھی عام تھا۔ رابعاً ہر عورت کے لیے اس کا مہیا کرنا ضروری نہیں، بلکہ جس کے لیے اس کا حصول ممکن ہو وہ استعمال کرے بصورت دیگر دوسری خوشبو بھی استعمال کی جاسکتی ہے، مقصد تو جلد کوتازہ کرنا اور بدبو کا ازالہ ہے اور وہ کسی بھی خوشبو سے ہو سکتا ہے۔ (4) اس حدیث میں لفظ (تَوَضَّئيِ) سے لغوی معنی مراد ہیں، کیونکہ لغت میں اس کے معنی روشن کرنا ہیں۔ آپ کے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ اس سے صفائی حاصل کرو۔ بعض روایات میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنا چہرہ چھپا لیا۔ (سنن النسائي، الطهارة، حدیث:252) تو یہ حیا کی وجہ سے تھا۔ واللہ أعلم ۔