تشریح:
1۔ رسول اللہ ﷺنے فرمایا تھا۔ ’’جزیرہ عرب میں دو دین اکٹھے نہیں رہ سکتے۔‘‘ (السنن الکبری للبیھقی:115/6) نیز یہودیوں کو فتنہ انگیزی اور آئے دن مسلمانوں کے خلاف ان کی سازشوں کی وجہ سے یہودیوں کو وہاں سے نکالا۔ حضرت ابو بکر ؓ اپنی خلافت میں انھیں اس لیے نہ نکال سکے کہ وہ مرتدین کے خلاف جنگ وقتال میں مصروف رہے۔ اس لیے انھیں ان کے خلاف کاروائی کرنے کا وقت نہ مل سکا۔ 2۔ واضح رہے کہ تیماء بلا وطی میں سمندر کے کنارے ایک گاؤں کا نام ہے اور اریحاء ارض شام میں ایک بستی کو کہا جاتا ہے۔ 3۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس حدیث کا عنوان سے کوئی تعلق نہیں لیکن یہ اعتراض بے جا ہے کیونکہ ارض خیبر کو فتح کرنے کے بعد یہودیوں سے یہ معاہدہ ہوگیا تھا چونکہ پہلے وہ تمام زمین یہودیوں کی تھی پھر وہ اللہ اور اس کے رسول کی ہوگئی رسول اللہﷺنے وہاں اپنے صوابدیدی اختیارات استعمال کرتے ہوئے انھیں بٹائی پردے دی گویا آپ نےایک طرح سے ان زمینوں کو انھیں بخش دیا۔ باب سے مطابقت کے لیے اتنا ہی کافی ہے۔ (فتح الباري:306/6)