تشریح:
1۔ رسول اللہ ﷺنے اپنی طرف سے مقتول کے ورثاء کو خون بہادے کر خیبر کے یہودیوں سے صلح برقرار رکھی۔ اگرمال دے کسی مصلحت کی بنا پر سابقہ صلح کو برقرار رکھا جاسکتا ہے تو بوقت ضرورت مال دے کر کفار سے صلح بھی کی جاسکتی ہے۔ 2۔مشرکین وکفار کو مال دے کر صلح کرنے کی بنیادی شرط یہ ہے کہ اس صلح میں مسلمانوں کے لیے بہتری ہو۔ اگراس کے برعکس کفار سے مال لے کر صلح کی جائے تووہ مال جزیے کے مصارف میں خرچ کیا جائے۔ امام بخاری ؒ نے اپنی عادت کے مطابق دیگرمقامات پر ذکر کردہ احادیث سے بدعہدی وغیرہ کی سنگینی کو ثابت کیا ہے۔ عنوان سے ان احادیث کی طرف اشارہ کیا ہے۔ 3۔ اس حدیث سے رسول اللہ ﷺکی امن پسندی، فراخدلی اور صلح جوئی ثابت ہوتی ہے، باوجود یہ کہ مقتول ایک مسلمان تھا جویہودیوں کے علاقے میں قتل ہوا مگررسول اللہﷺنے ان کی حرکت کو نظر انداز کردیا تاکہ امن کی فضا قائم رہے اور کوئی فساد نہ کھڑا ہوجائے۔ جب فریقین کی بات فیصلہ کن مراحل میں پہنچتی نظر نہ آئی تو آپ نے مقتول کے مسلمان ورثاء کو خود بیت المال سے دیت ادا کردی۔ واللہ أعلم۔