تشریح:
1۔ ایک روایت میں ہے کہ میری رحمت میرے غضب سے پہلے ہے۔ (صحیح البخاري، التوحید، حدیث:7453) جبکہ صفات باری تعالیٰ میں تقدم و تاخیر نہیں ہے دراصل رحمت کا تعلق غضب کے تعلق سے مقدم ہے کیونکہ رحمت اللہ کی ذات مقدسہ سے متعلق ہے اور غضب انسان کے عمل پر موقوف ہے۔ یہ تعلق حادث ہے اور اس میں تقدیم و تاخیر ممکن ہے۔ 2۔اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ عرش کی تخلیق قلم سے پہلے ہوئی جس کے ذریعے سے نوشتہ تقدیر کو ضبط تحریر میں لایا گیا۔ 3۔واضح رہے کہ رحمت کے غالب ہونے میں اشارہ ہے کہ رحمت کے مستحقین بھی مقدار کے اعتبار سے غضب کے مستحقین پر غالب رہیں گےرحمت ایسے لوگوں پر بھی ہوگی جن سے نیکیوں کا صدورہی نہیں ہوا جبکہ اس کا غضب صرف ان لوگوں پر ہوگا جن سے گناہوں کا صدور ہوا ہوگا۔ بہر حال امام بخاری ؒنے اس حدیث سے ابتدائے خلق کو ثابت کیا ہے۔ واللہ أعلم۔