قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ بَدْءِ الخَلْقِ (بَابُ مَا جَاءَ فِي سَبْعِ أَرَضِينَ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَوَاتٍ وَمِنَ الأَرْضِ مِثْلَهُنَّ يَتَنَزَّلُ الأَمْرُ بَيْنَهُنَّ لِتَعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ وَأَنَّ اللَّهَ قَدْ أَحَاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْمًا} {وَالسَّقْفِ المَرْفُوعِ} [الطور: 5]: «السَّمَاءُ»، {سَمْكَهَا} [النازعات: 28]: «بِنَاءَهَا»، {الحُبُكُ} [الذاريات: 7]: اسْتِوَاؤُهَا وَحُسْنُهَا، {وَأَذِنَتْ} [الانشقاق: 2]: «سَمِعَتْ وَأَطَاعَتْ»، {وَأَلْقَتْ} [الانشقاق: 4] «أَخْرَجَتْ»، {مَا فِيهَا} [الانشقاق: 4] «مِنَ المَوْتَى»، {وَتَخَلَّتْ} [الانشقاق: 4]: «عَنْهُمْ»، {طَحَاهَا} [الشمس: 6] «دَحَاهَا»، {بِالسَّاهِرَةِ} [النازعات: 14]: «وَجْهُ الأَرْضِ، كَانَ فِيهَا الحَيَوَانُ نَوْمُهُمْ وَسَهَرُهُمْ»

3196. حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ أَخَذَ شَيْئًا مِنَ الأَرْضِ بِغَيْرِ حَقِّهِ، خُسِفَ بِهِ يَوْمَ القِيَامَةِ إِلَى سَبْعِ أَرَضِينَ»

مترجم:

ترجمۃ الباب:

اور اللہ تعالیٰ نے سورہ طلاق میں فرمایا ، کہ اللہ تعالیٰ ہی وہ ذات ہے جس نے پیدا کئے سات آسمان اور آسمان ہی کی طرح سات زمینیں ۔ اللہ تعالیٰ کے احکام ان کے درمیان اترتے ہیں ۔ یہ اس لیے تاکہ تم کو معلوم ہو کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے اور اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو اپنے علم کے اعتبار سے گھیر رکھا ہے اور سورہ طور میں والسقف المرفوع سے مراد آسمان ہے اور سوہ والنازعات میں جو﴾رفع سمکہا﴿ ہے سمک کے معنی بناء عمارت کے ہیں ۔ اور سورہ والذاریات میں جو حبک کا لفظ آیا ہے اس کے معنی برابر ہونا یعنی ہموار اور خوبصورت ہونا ۔ سورہ اذا السماءانشقت میں جو لفظ اذنت ہے اس کا معنی سن لیا اور مان لیا ، اور لفظ القت کا معنی جتنے مردے اس میں تھے ان کو نکال کر باہر ڈال دیا ، خالی ہوگئی ۔ اور سورہ والیل میں جو لفظ طحاہا ہے اس کے معنی بچھایا ۔ اور سورہ والنازعات میں جو ساہرہ کا لفظ ہے اس کے معنی روئے زمین کے ہیں ، وہیں جاندار رہتے سوتے اور جاتے ہیں ۔جن کے لیے زمین گویا ایک بھچونا ہے جو اللہ پاک نے خود بچھادیا ہے۔ جس کے بارے میں یہ ارشاد بھی ہے منہا خلقنکم وفیہا نعیدکم و منہا نخرجکم تار اخري ( طٰہ: 55 ) یعنی ہم نے تم کو اسی زمین سے پیدا کیا، اور اسی میں ہم تم کو لوٹادیں گے، اور قیامت کے دن قبروں سے تم کو نکال کر میدان قیامت میں حاضر کریں گے۔ نص قرآنی سے سات آسمانوں اور ان ہی کی طرح سات زمینوں کا وجود ثابت ہوا، پس جو ان کا انکار کرے وہ گویا قرآن ہی کا انکار کررہا ہے۔ اب سات آسمانوں اور سات زمینوں کی بے حد کھوج میں لگنا انسانی حدود اختیارات سے آگے تجاوز کرنا ہے۔ تو کار زمین رانکو ساختی کہ بآسماں نیز پرداختی

3196.

حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص کسی دوسرے کی تھوڑی سی بھی زمین ناحق لے لے تو وہ قیامت کے دن سات زمینوں میں دھنستا چلا جائے گا۔‘‘