تشریح:
1۔ امام مسلم ؒ نے حضرت جابر ؒ سے ایک روایت بیان کی ہےکہ اہل جنت میں کھائیں پئیں گے اور بول و براز (پیشاب پاخانہ) نہیں کریں گے بلکہ ان کا کھانا ایک ڈکار سے ہضم ہو جائے گا اور وہ ڈکار بھی کستوری جیسا ہوگا۔ (صحیح مسلم، الجنة وصفة نعیمها و أھلها، حدیث 7154(2835) اس کی مزید تفصیل امام احمد ؒنے حضرت زید بن ارقم ؓ سے مروی ایک روایت میں ذکر کی ہے کہ اہل کتاب میں سے ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے سے عرض کی ابو القاسم !آپ کہتے ہیں جنتی کھائیں پئیں گے؟ آپ نے فرمایا:’’ہاں ایک آدمی کو کھانے پینے اور جماع کرنے میں سو آدمی کی طاقت دی جائے گی۔‘‘ اس نے کہا جو شخص کھائے پیے گا اسے رفع حاجت کی ضرورت ہوگی حالانکہ جنت میں اس طرح کی آلائشیں نہیں ہوں گی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ان کے جسم سے کستوری کی طرح خوشبو دار پسینہ برآمد ہوگا۔ یہی ان کی قضائے حاجت ہوگی۔‘‘ (مسند أحمد:367/4) دراصل دنیا کے کھانے کثیف ہوتے ہیں اس لیے اہل دنیا کو رفع حاجت کی ضرورت لاحق ہوتی ہے لیکن جنت میں کھانے پینے کا سامان لطافت سے بھر پورہوگا اس لیے ان کی رفع حاجت بھی لطیف انداز سے ہوگی۔ واللہ أعلم۔ 2۔اس حدیث میں کنگھیوں کا ذکر ہے۔ جنت میں اپنے حسن کو دوبالا کرنے کے لیے کنگھی کی جائے گی کیونکہ بالوں میں میل کچیل کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہو گا۔ (اللهم ارزقنا جنة الفردوس بغير حساب وعذاب)