قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ بَدْءِ الخَلْقِ (بَابُ مَا جَاءَ فِي صِفَةِ الجَنَّةِ وَأَنَّهَا مَخْلُوقَةٌ)

تمہید باب عربی

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: قَالَ أَبُو العَالِيَةِ: {مُطَهَّرَةٌ} [البقرة: 25]: «مِنَ الحَيْضِ، وَالبَوْلِ، وَالبُزَاقِ»، {كُلَّمَا رُزِقُوا} [البقرة: 25]: «أُتُوا بِشَيْءٍ ثُمَّ أُتُوا بِآخَرَ»، {قَالُوا هَذَا الَّذِي رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ} [البقرة: 25]: «أُتِينَا مِنْ قَبْلُ»، {وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا} [البقرة: 25]: «يُشْبِهُ بَعْضُهُ بَعْضًا وَيَخْتَلِفُ فِي الطُّعُومِ» {قُطُوفُهَا} [الحاقة: 23]: «يَقْطِفُونَ كَيْفَ شَاءُوا» {دَانِيَةٌ} [الأنعام: 99]: «قَرِيبَةٌ» {الأَرَائِكُ} [الكهف: 31]: «السُّرُرُ» وَقَالَ الحَسَنُ: «النَّضْرَةُ فِي الوُجُوهِ وَالسُّرُورُ فِي القَلْبِ» وَقَالَ مُجَاهِدٌ: {سَلْسَبِيلًا} [الإنسان: 18]: «حَدِيدَةُ الجِرْيَةِ»، {غَوْلٌ} [الصافات: 47]: «وَجَعُ [ص:117] البَطْنِ»، {يُنْزَفُونَ} [الصافات: 47]: «لاَ تَذْهَبُ عُقُولُهُمْ» وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: {دِهَاقًا} [النبأ: 34]: «مُمْتَلِئًا»، {كَوَاعِبَ} [النبأ: 33]: «نَوَاهِدَ» الرَّحِيقُ: «الخَمْرُ» التَّسْنِيمُ: «يَعْلُو شَرَابَ أَهْلِ الجَنَّةِ»، {خِتَامُهُ} [المطففين: 26]: «طِينُهُ» {مِسْكٌ} [المطففين: 26]، {نَضَّاخَتَانِ} [الرحمن: 66]: «فَيَّاضَتَانِ»، يُقَالُ: {مَوْضُونَةٌ} [الواقعة: 15]: مَنْسُوجَةٌ، مِنْهُ وَضِينُ النَّاقَةِ، وَالكُوبُ: مَا لاَ أُذْنَ لَهُ وَلاَ عُرْوَةَ، وَالأَبَارِيقُ: ذَوَاتُ الآذَانِ وَالعُرَى. {عُرُبًا} [الواقعة: 37]: «مُثَقَّلَةً»، وَاحِدُهَا عَرُوبٌ، مِثْلُ صَبُورٍ وَصُبُرٍ، يُسَمِّيهَا أَهْلُ مَكَّةِ العَرِبَةَ، وَأَهْلُ المَدِينَةِ الغَنِجَةَ، وَأَهْلُ العِرَاقِ الشَّكِلَةَ " وَقَالَ مُجَاهِدٌ: {رَوْحٌ} [يوسف: 87]: جَنَّةٌ وَرَخَاءٌ، وَالرَّيْحَانُ: الرِّزْقُ، وَالمَنْضُودُ: المَوْزُ، وَالمَخْضُودُ: المُوقَرُ حَمْلًا، وَيُقَالُ أَيْضًا: لاَ شَوْكَ لَهُ، وَالعُرُبُ: المُحَبَّبَاتُ إِلَى أَزْوَاجِهِنَّ، وَيُقَالُ {مَسْكُوبٌ} [الواقعة: 31]: جَارٍ، {وَفُرُشٍ مَرْفُوعَةٍ} [الواقعة: 34]: بَعْضُهَا فَوْقَ بَعْضٍ، {لَغْوًا} [مريم: 62]: بَاطِلًا، {تَأْثِيمًا} [الواقعة: 25]: كَذِبًا، {أَفْنَانٌ} [الرحمن: 48]: أَغْصَانٌ، {وَجَنَى الجَنَّتَيْنِ دَانٍ} [الرحمن: 54]: مَا يُجْتَنَى قَرِيبٌ، {مُدْهَامَّتَانِ} [الرحمن: 64]: سَوْدَاوَانِ مِنَ الرِّيِّ "

3252. حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِنَانٍ، حَدَّثَنَا فُلَيْحُ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا هِلاَلُ بْنُ عَلِيٍّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي عَمْرَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: إِنَّ فِي الجَنَّةِ لَشَجَرَةً يَسِيرُ الرَّاكِبُ فِي ظِلِّهَا مِائَةَ سَنَةٍ، وَاقْرَءُوا إِنْ شِئْتُمْ {وَظِلٍّ مَمْدُودٍ} [الواقعة: 30]

مترجم:

ترجمۃ الباب:

 ابوالعالیہ نے کہا ( سورۃ بقرہ میں ) جو لفظ ازواج مطہرۃآیا ہے اس کا معنی یہ ہے کہ جنت کی حوریں حیض اور پیشاب اور تھوک اور سب گندگیوں سے پاک صاف ہوں گی اور جویہ آیا ہے کلما رزقوا منہا من ثمرۃ رزقا آخر آیت تک اس کا مطلب یہ ہے کہ جب ان کے پاس ایک میوہ لایا جائے گا پھر دوسرا میوہ تو جنتی کہیں گے یہ تو وہی میوہ ہے جو ہم کو پہلے مل چکا ہے ۔ متشابہا کے معنی صور ت اور رنگ میں ملے جلے ہوں گے لیکن مزید میں جدا جدا ہوں گے ( سورۃ حاقہ میں ) جو لفظ قطوفہا دانیہ آیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ بہشت کے میوے ایسے نزدیک ہوں گے کہ بہشتی لوگ کھڑے بیٹھے جس طرح چاہیں ان کو توڑ سکیں گے ۔ دانیہ کا معنی نزدیک کے ہیں ، اَرَائِکُ کے معنی تخت کے ہیں ، امام حسن بصری نے کہا لفظ نضرۃ منہ کی تازگی کو اور سرور دل کی خوشی کو کہتے ہیں ۔ اور مجاہد نے کہا سلسبیلا کے معنی تیز بہنے والی ، اور لفظ غول کے معنی پیٹ کے درد کے ہیں ۔ ینزفون کے معنی یہ کہ ان کی عقل میں فور نہیں آئے گا ۔ جیسا کہ دنیاوی شراب سے آ جاتا ہے ) اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا ( سورہ نبا میں ) جو دہاقا کا لفظ آیا ہے اس کے معنی لبالب بھرے ہوئے کہ ہیں ۔ لفظ کواکب کے معنی پستان اٹھے ہوئے کے ہیں ، لفظ رحیق کے معنی جنت کی شراب ، تسنیم وہ عرق جو بہشتیوں کی شراب کے اوپر ڈالا جائے گا ۔ بہشتی اس کو پئیں گے اور لفظ ختام ( سورۃ مطففین میں ) کے معنی مہر کی مٹی ( جس سے وہاں کیش راب کی بوتلوں پر مہر لگی ہوئی ہوگی ۔ نضاختان ( سورۃ رحمن میں ) دو جوش مارتے ہوئے چشمے ، لفظ موضونۃ ( سورۃ واقعہ میں ) کا معنی جڑاو بنا ہوا ، اسی سے لفظ وضین الناقۃ نکلا ہے ۔ یعنی اونٹنی کی جھول وہ بھی بنی ہوئی ہوتی ہے اور لفظ کوب کا معنی جس کی جمع اکواب ( سورۃ واقعہ میں ) ہے ، کوزہ جس میں نہ کان ہو نہ کنڈا اور لفظ اباریق ابریق کی جمع وہ کوزہ جو کان اور کنڈہ رکھتا ہو ۔ اور لفظ عربا ( سورۃ واقعہ میں ) عروب کی جمع ہے جیسے صبور کی جمع صبر آتی ہے ۔ مکہ والے عروب کو عَرِبَۃُ اور مدینہ والے غنجہ اور عراق والے شکلہ کہتے ہیں ۔ ان سب سے وہ عورت مراد ہے جو اپنے خاوند کی عاشق ہو ۔ اور مجاہد نے کہا لفظ روح ( سورۃ واقعہ میں ہے ) کا معنی بہشت اور فراخی رزق کے ہیں ۔ ریحان کا معنی ( جو اسی سورۃ میں ہے ) رزق کے ہیں اور لفظ منضود ( سورۃ واقعہ ) کا معنی کیلے کے ہیں ۔ مخضود وہ بیر جس میں کانٹا نہ ہو ۔ میوے کے بوجھ سے لٹکا ہوا ہے بعض لوگ کہتے ہیں کہ لفظ عرب ( جو سورۃ واقعہ میں ہے ) اس کے معنی وہ عورتیں جو اپنے خاوند کی محبوبہ ہوں ، مکسوب کا معنی ( جو اسی سورۃ میں ہے ) بہتا ہوا پانی ۔ اور لفظ وفرش مرفوعۃ ( سورۃ واقعہ ) کا معنی بچھونے اونچے یعنی اوپر تلے بچھے ہوئے ، لفظ لغوا جو اسی سورۃ میں ہے ۔ اس کے معنی غلط جھوٹ کے ہیں ۔ لفظ تائیما جو اسی سورۃ میں ہے اس کا معنی بھی جھوٹ کے ہیں ۔ لفظ افنان جو سورۃ رحمن میں ہے ۔ اس کے معنی شاخیں ڈالیاں اور وجناالجنتین دان کا معنی بہت تازگی اور شاداب کی وجہ سے وہ کالے ہورہے ہوں گے ۔مجتہد اعظم حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس باب میں ان اکثر الفاظ کے معانی و مطالب بیان کردئیے جو جنت کی تعیف میں قرآن مجید میں مستعمل ہوئے ہیں۔ اللہ پاک لکھنے والے اور پڑھنے والوں کو جنت کی یہ جملہ نعمتیں عطا کرے۔ آمین

3252.

حضرت ابو ہریرہ  ؓسے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’جنت میں ایک ایسا درخت ہے جس کے سائے میں سوار سو سال تک چلتا رہے گا۔ اگر تم اس کی صداقت چاہتے ہو تو اللہ کا یہ ارشاد پڑھ لو۔ ’’اور لمبے لمبے سائے۔‘‘