تشریح:
1۔ رسول اللہ ﷺ اپنی امت پر بہت مہربانی اور شفقت کرتے تھے اس لیے آپ نے وضاحت کردی کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ شیطان ان کے دلوں میں کوئی ایسی ویسی بات ڈال دے جو ان کی ہلاکت کا باعث ہو۔ 2۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ انسان کو کسی بھی ایسی حالت سے بچنا چاہیے کس سے شبہات پیدا ہوں اور اگر بظاہرایسا موقع بن جائے تو اس کی وضاحت کر دینی چاہیے رسول اللہ ﷺ نے یہی سوچ کر ان کے سامنے اصل معاملہ رکھ دیا اور انھیں غلط وسوسے سے بچا لیا۔ 3۔ انسان کے جسم میں شیطان کا گردش کرنا حقیقت پر محمول ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے انسان کے جسم میں خون کی طرح گردش کرنے کی قوت دی ہے تاہم کچھ علماء کا خیال ہے کہ وہ کثرت وسوس کی بنا پر انسان کےساتھ لگا رہتاہے اور اس سے علیحدہ نہیں ہوتا۔ 4۔ امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے ہمیں متنبہ کیا ہے کہ شیطانی وسوسہ اندازی سے ہمیں چوکس رہنا چاہیے وہ بڑے خفیہ اور لطیف انداز سے لوگوں کو گمراہ کرتا ہےاس کی خفیہ سازش کو قرآن کریم نے آخری سورت میں بیان کیا ہے۔