تشریح:
1۔ رسول اللہ ﷺ پر بڑے سرکش قسم کے شیطان نے حملہ کیاتھا۔ رسول اللہ ﷺ نے اسےپکڑ کر اس کاگلا دبایا، پھر آپ نے اسے مسجد کے ستون کے ساتھ باندھنے کا ارادہ فرمایا تاکہ صحابہ کرام ؓ اس منحوس کو دیکھیں لیکن آپ کو حضرت سلیمان ؑ کی دعا یاد آگئی کہ انھوں نے اللہ تعالیٰ سے عرض کی:﴿رَبِّ اغْفِرْ لِي وَهَبْ لِي مُلْكًا لا يَنْبَغِي لأحَدٍ مِنْ بَعْدِي﴾ ’’اے اللہ!مجھے معاف کردے اور مجھے ایسی حکومت دے جو میرے بعدکسی کے لائق نہ ہو۔‘‘ (ص 35:38) رسول اللہ ﷺ نے اسے شرمسار کرکے چھوڑدیا۔ اس طرح وہ اپنے مقصد میں بری طرح ناکام رہا۔ (صحیح البخاري، الصلاة، حدیث:461) 2۔مقصد یہ ہے کہ لعین شیطان ایسی گندی فطرت کا حامل ہے کہ اس نے رسول اللہ ﷺ پر بھی حملہ کرنے سے گریز نہیں کیا۔