تشریح:
1۔ اس عنوان میں امام بخاری ؒ دو باتیں بتلانا چاہتے ہیں: ©۔ حالت نفاس میں مرنے والی کا جنازہ پڑھا جائے گا۔ ©۔ جنازہ پڑھتے وقت اس کے وسط، یعنی کمر کے سامنے کھڑا ہونا چاہیے۔ اس مسئلے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ نفاس کی حالت نجاست کی حالت ہے اور اس حالت میں اسے موت آئی ہے، گویا موت آنے سے نجاست مستقر ہوگئی۔ اب سوال یہ ہے کہ نفاس کی حالتِ نجاست جب موت سے برقرار ہوگئی تو اس پر نماز جنازہ کی اجازت ہوگی؟ امام بخاری نے حدیث سے ثابت فرمایا کہ نفاس میں مرنے والی عورت کا جنازہ پڑھنا صحیح ہے۔ یہ خیال کرنا کہ وہ تو پہلے ہی ناپاک تھی اور موت آنے سے اس کی ناپاکی میں اضافہ ہوگیا، اس لیے نماز جنازہ پڑھنے کا کیا موقع ہے، یہ خیال صحیح نہیں، کیونکہ یہ ایک معنوی ناپاکی تھی جو موت آنے سے ختم ہوگئی اور حسی ناپاکی غسل دینے سے دھل گئی۔ وہ عورت پاک ہے۔ اس کے اندر ایمانی طہارت موجود ہے، لہذا نماز جنازہ پڑھنا درست ہوا۔ عنوان کا دوسرا جز کہ ایسی عورت کی نماز جنازہ کیسے پڑھی جائے؟ اس مسئلے کا اصل محل کتاب الجنائز ہے، چنانچہ وہاں ایک باب بایں الفاظ قائم کیا ہے:’’مرد اور عورت کے جنازے میں امام کہاں کھڑا ہو؟‘‘ لیکن امام بخاری ؒ یہاں تنبیہ کرنا چاہتے ہیں کہ نماز جنازہ پڑھتے وقت کھڑے ہونے میں نفاس والی اوردوسری عورتوں میں کوئی فرق نہیں اور کتاب الجنائز میں جب مذکورہ عنوان آئے گا تو وہاں مقصد مسئلہ قیام ہی کا بیان ہوگا۔ 2۔ شارح بخاری علامہ ابن بطال ؒ لکھتے ہیں کہ نفاس والی عورت چونکہ خود نماز نہیں پڑھ سکتی، اس لیے شاید کسی کے دل میں خیال پیدا ہو کہ اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھنی چاہیے۔ امام بخاری نے تنبیہ فرمائی ہے کہ جنازے کے متعلق اس عورت کا حکم عام عورتوں جیسا ہے، جب رسول اللہ ﷺ نے اس پر نماز جنازہ پڑھی ہے تو گویا اس کے لیے طہارت کا حکم ثابت ہوا، حالت نفاس میں اس کا نماز نہ پڑھنا نجاست کی بنا پر نہیں، بلکہ یہ ایک حکم تعبدی ہے۔ اس سے اس موقف کی بھی تردید ہوگئی کہ مومن مرنے سے ناپاک ہوجاتا ہے، کیونکہ ایسی بات ہوتی تو رسول اللہ ﷺ نفاس والی عورت کا جنازہ کیوں پڑھاتے، جبکہ نجاست دم تو پہلے ہی تھی، پھر اس کے ساتھ موت کی نجاست بھی جمع ہوگئی، جب رسول اللہ ﷺ نے ایسی عورت کا جنازہ پڑھایا ہے تو ایسی میت جس سے خون نہیں بہتا کیونکہ مرنے سے نجاست آلود ہوگی۔ (شرح ابن بطال:462/1) 3۔ بعض لوگوں نے کہا ہے کہ مذکورہ حدیث پر یہ عنوان قائم کرنا صحیح نہیں ہے، کیونکہ حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ وہ عورت پیٹ کی بیماری سے فوت ہوئی تھی، شاید امام بخاری کو اس پر وہم ہوا ہے کہ انھوں نے اسے زچگی خیال کیا ہے، حالانکہ یہ بات سرے سے حقیقت کے خلاف ہے، بلکہ اس سے مراد نفاس میں فوت ہونا ہے۔ جیسا کہ امام بخاری کی بیان کردہ ایک روایت میں ہے کہ وہ اپنے نفاس میں فوت ہوئی تھی۔ (صحیح البخاري، الجنائز، حدیث:1331) لہذا حدیث اور امام بخاری ؒ کا عنوان بالکل صحیح اوربرمحل ہے۔ نفاس اور اس کے احکام: سرزمین حجاز کے مشہور عالم دین شیخ محمد بن صالح العثمین ؒ کے ایک رسالے سے نفاس اور اس کے احکام درج کیے جاتے ہیں: ©۔ تعریف:۔ وہ خون جو ولادت کی بنا پر رحم سے برآمد ہو، نفاس کہلاتا ہے، خواہ ولادت کے وقت یا اسکے بعد یا اس سے دو یاتین دن پہلے آئے بشرطیکہ اس کے ساتھ دردِزہ بھی ہو۔ ©۔ مدت:۔عام طور پر اس کی مدت چالیس دن ہوتی ہے، چالیس دنوں سے زائد ہونے کی صورت میں عورت کی سابقہ عادت کے مطابق عمل کیا جائے یا اس کے بعد اگرخون رکن کی علامتیں ظاہر ہوں تو اس کے ختم ہونے کا انتظار کیاجائے اور اسے نفاس میں شمار کیا جائے، بصورت دیگرچالیس دن پورے ہونے پر غسل کرکے نماز روزہ شروع کردیا جائے۔ اگرچالیس دنوں سے پہلے خون بند ہوجائے تو بھی عورت کو چاہیے کہ وہ غسل کرکے نماز روزہ شروع کردیاجائے۔ اگرچالیس دنوں سے پہلے خون بند ہوجائے تو بھی عوت کو چاہیے کہ وہ غسل کرکے نماز روزہ شروع کردے۔واضح رہے کہ نفاس اس ولادت کے بعد شمار ہوگا جس میں بچے کی شکل وصورت بن چکی ہو۔ اگر شکل وصورت بننے سے پہلے ہی اسقاط ہوجائے تو اس وقت برآمد ہونے والے خون کو نفاس نہیں کہا جائے گا، بلکہ وہ کسی رگ کا خون ہے جس پر استحاضے کے احکام جاری ہوں گے۔ کم از کم مدت جس میں بچے کی شکل وصورت بن جاتی ہے، وہ ابتدائے حمل سے اسی (80) دن اور زیادہ سے زیادہ نوے (90) دن ہے۔ ©۔ نفاس کے احکام: اس کے احکام حیض جیسے ہیں، البتہ درج ذیل چند مسائل میں اس کا الگ حکم ہے: ©۔ عدتِ طلاق کا تعلق قطعی طور پر نفاس سے نہیں ہے، کیونکہ اگرطلاق وضع حمل سے پہلے دی گئی ہے تو اس کی مدت کو بڑھایا نہیں جائے گا اور اگرطلاق وضع حمل کے بعد دی ہے تو نفاس کے بعد حیض آنے تک انتظار کیا جائے گا۔یعنی تین حیض گزرنے پر عدت ختم ہوگی۔ ©۔ ایلا کی صورت میں حیض کی مدت کو شمار کیا جائے گا لیکن نفاس کی مدت شمار نہیں ہوگی۔ ایلا یہ ہے کہ خاوند چار ماہ سے زائد یا ہمیشہ کے لیے اپنی بیوی کے پاس نہ جانے کی قسم کھالے۔ عورت کے مطالبے پر خاوند کے قسم کھانے سے چار ماہ کی مدت مقرر کی جائے گی اور اس سے مطالبہ کیا جائے گا کہ وہ اپنی بیوی سے رجوع کرے یا اسے فارغ کردے۔ اس چار ماہ کی مدت میں اگرولادت ہوجائے تو نفاس کے ایام چار ماہ میں شامل نہیں ہوں گے، البتہ ایام حیض کو چار ماہ کی مدت میں شمار کیا جائے گا۔ ©۔ حیض کی آمد عورت کے بالغ ہونے کی علامت ہے جبکہ خون نفاس سے پہلے اس کا بالغ ہونا ضروری ہے، کیونکہ عورت کو حمل اس کے انزال سے ہوتا ہے۔ حمل سے پہلے انزال ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ بالغ ہوچکی ہے، اس لیے خون نفاس کو بلوغ کی علامت ٹھہرانے کے بجائے حیض کو اس کے بالغ ہونے کی نشانی قراردیا جائے گا۔ ©۔ اگرحیض کا خون رک جائے، پھر عادت کے ایام میں دوبارہ شروع ہوجائےتو اسے قطعی طور پر حیض ہی شمار کیاجائے گا، مثلاً: ایک عورت کو اس کی عادت کے مطابق آٹھ دن خون آتا ہے، چاردن کے بعد خون منقطع ہوگیا۔ دودن خون بند رہا، پھر ساتویں اورآٹھویں دن خون جاری ہواتو اسے حیض ہی شمار کیا جائے گا اور اس پر احکام حیض ہی جاری ہوں گے۔ اس کے برعکس اگرچالیس دن سے پہلے خون نفاس بند ہوگیا، پھر چالیس دن پورے ہونے پر دوبارہ جاری ہوگیا تو اسے خون مشکوک قراردیا جائے گا، یعنی وہ عورت نماز روزہ شروع کردے گی، البتہ شوہر اس کے پاس نہیں آئے گا، طہر کے بعد پڑھی ہوئی نمازوں اور رکھے ہوئے روزوں کی قضا بھی دینی ہوگی، لیکن صحیح بات یہ ہے کہ خون بند ہونے کے بعد اگرایسے وقت دوبارہ آجائے کہ اس میں نفاس آنا ممکن ہوتو اسے نفاس ہی شمارکریں گے، بصورت دیگر وہ حیض کا خون ہے۔ اگرخون جاری رہتا ہے تو اسے استحاضہ شمار کیا جائے گا۔ امام مالک ؒ فرماتے ہیں: خون نفاس انقطاع کے دو، تین دن بعد دوبارہ شروع ہوجاتا ہے تو نفاس ہی ہے، بصورت دیگراسے حیض شمار کیا جائے گا۔ ©۔ حیض کا خون آنے کی صورت میں اگرعورت اپنی مقررہ عادت سے پہلے پاک ہوجاتی ہے تو خاوند کو مقاربت کی اجازت ہے، اس میں کوئی قباحت نہیں، لیکن خون آنے کی صورت میں اگرچالیس دن سے پہلے عورت پاک ہوجائےتوخاوند کواس سے مقاربت کرنا مکروہ ہے، لیکن جمہور کے نزدیک اس مدت میں عورت کے پاس جانا مکروہ نہیں اور یہی بات درست ہے، کیونکہ کراہت بھی ایک شرعی حکم ہے جو دلیل کا محتاج ہے۔ اس سلسلے میں صرف عثمان بن ابی العاص ؓ کا عمل پیش کیا جاتا ہے کہ ان کی بیوی چالیس دے پہلے نفاس سے فارغ ہوگئی اور وہ ان کے پاس آئی تو انھوں نے کہا: میرے پاس نہ آنا۔ اس عمل سے کراہت کشید کی جاتی ہے۔ لیکن اس میں بھی کئی ایک احتمالات ہیں: ممکن ہے کہ عورت کو ابھی طہر کا یقین نہ ہوا ہو، اس لیے احتیاط کے پیش نظر ایسا کیا ہو یا اس خطرے کے پیش نظر ایسا کیا ہو مبادا جماع کرنے سے خون حرکت میں آجائے اور دوبارہ جاری ہوجائے۔ واللہ أعلم۔