تشریح:
یہ آیت کریمہ قوم عاد کی ہلاکت کے واقعے کے ضمن میں بیان ہوئی ہے۔ امام بخاری ؒنے اسی مناسبت سے اس حدیث کو بیان کیا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ﴿كَذَّبَتْ عَادٌ فَكَيْفَ كَانَ عَذَابِي وَنُذُرِ (18) إِنَّا أَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِيحًا صَرْصَرًا فِي يَوْمِ نَحْسٍ مُّسْتَمِرٍّ (19) تَنزِعُ النَّاسَ كَأَنَّهُمْ أَعْجَازُ نَخْلٍ مُّنقَعِرٍ (20) فَكَيْفَ كَانَ عَذَابِي وَنُذُرِ (21) وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍ ﴾ ’’قوم عاد نے جھٹلایا پھر میرا عذاب اور میرا ڈرانا کیسا تھا؟ ہم نے ایک منحوس دن میں ان پر سناٹے کی آندھی چھوڑدی جو مسلسل چلی ۔ وہ لوگوں کو یوں اکھاڑ کر پھینک رہی تھی جڑے اکھڑے ہوئے کھجوروں کے تنے ہوں پھر میرا عذاب اورڈرانا کیسا رہا؟ ہم نے اس قرآن کو نصیحت کے لیے آسان بنا دیا پھر کیا ہے کوئی نصیحت ماننے والا۔‘‘ (القمر:18، 22) یہ عذاب ٹھنڈا یخ آندھی کا تھا جو مضبوط قلعوں میں گھس کر لوگوں کو پٹخ پٹخ کر زمین پر مارتی اور ان کی گردن توڑ کر رکھ دیتی تھی۔ أعا ذنااللہ منها۔