تشریح:
1۔ مورخین اسلام اس دیوار کو سد یاجوج وماجوج کہتے ہیں جسے نیک سیرت اور ہمدرد بادشاہ ذوالقرنین نے جبل الطائی کے کسی درے کو بند کرنے کے لیے بنوایاتھا۔ اس پہاڑ کے پیج میں ایک درہ کشادہ تھا جہاں سے یاجوج وماجوج کی قومیں حملہ آور ہوتی تھیں۔ ذوالقرنین حمیری نے پہلے لوہے کے بڑے بڑے تختوں کی اوپر نیچے تہیں جمائیں۔ جب ان کی بلندی دونوں طرف سے پہاڑوں کے برابر ہوگئی تولکڑی اور کوئلے سے خوب آگ کو دہکایا۔ جب لوہا آگ کی طرح سرخ ہوگیا تو پگھلا ہواتانبا اوپر سے ڈالا گیا جو لوہے کی چادروں کی درزوں میں جم کر پیوست ہوگیا۔ یہ سب کچھ مل کر پہاڑ سا بن گیا۔ تانبے کے رنگ اور لوہے کی سیاہی سے یہ دیوار نقش دار چادر کی طرح بن گئی جس کا ایک صحابی نے تذکرہ کیا ہے اور اہل مدینہ میں سے ایک آدمی نے کہا:اللہ کے رسول ﷺ! میں نے سد یاجوج وماجوج کو دیکھا ہے۔آپ نے دریافت فرمایا:’’وہ کس طرح کا تھا؟‘‘ عرض کی:منقش چادر کی طرح جس میں سرخ اورسیاہ دھاریاں تھیں۔ آپ نے فرمایا:’’واقعی تو نے اسےدیکھا ہے۔‘‘ (عمدة القاري:47/11) 2۔ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں اس میں دراڑیں پڑچکی تھیں۔ اور قیامت سے پہلے وہ ختم ہوجائے گی۔ 3۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہواکہ گناہوں کی کثرت کے نتیجے میں جب اللہ کا عذاب نازل ہوتا ہے تو بروں کے ساتھ نیکوں کو بھی صفحہ ہستی سے مٹادیاجاتا ہے۔ أعاذنا اللہ منه۔