قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ أَحَادِيثِ الأَنْبِيَاءِ (بَابُ قِصَّةِ يَأْجُوجَ، وَمَأْجُوجَ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: قَالُوا {يَا ذَا القَرْنَيْنِ إِنَّ يَأْجُوجَ، وَمَأْجُوجَ مُفْسِدُونَ فِي الأَرْضِ} [الكهف: 94] قَوْلُ اللَّهِ تَعَالَى {وَيَسْأَلُونَكَ عَنْ ذِي القَرْنَيْنِ قُلْ سَأَتْلُو عَلَيْكُمْ مِنْهُ ذِكْرًا. إِنَّا مَكَّنَّا لَهُ [ص:138] فِي الأَرْضِ وَآتَيْنَاهُ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ سَبَبًا} [الكهف: 84]. (فَاتَّبَعَ سَبَبًا) - إِلَى قَوْلِهِ - (ائْتُونِي زُبَرَ الحَدِيدِ): «وَاحِدُهَا زُبْرَةٌ وَهِيَ القِطَعُ» {حَتَّى إِذَا سَاوَى بَيْنَ الصَّدَفَيْنِ} [الكهف: 96] يُقَالُ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ: الجَبَلَيْنِ، وَالسُّدَّيْنِ الجَبَلَيْنِ {خَرْجًا} [الكهف: 94]: «أَجْرًا»، {قَالَ انْفُخُوا حَتَّى إِذَا جَعَلَهُ نَارًا قَالَ آتُونِي أُفْرِغْ عَلَيْهِ قِطْرًا} [الكهف: 96]: " أَصْبُبْ عَلَيْهِ رَصَاصًا، وَيُقَالُ الحَدِيدُ، وَيُقَالُ: الصُّفْرُ " وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: «النُّحَاسُ» {فَمَا اسْطَاعُوا أَنْ يَظْهَرُوهُ} [الكهف: 97] " يَعْلُوهُ، اسْتَطَاعَ اسْتَفْعَلَ، مِنْ أَطَعْتُ لَهُ، فَلِذَلِكَ فُتِحَ أَسْطَاعَ يَسْطِيعُ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: اسْتَطَاعَ يَسْتَطِيعُ "، وَمَا اسْتَطَاعُوا لَهُ نَقْبًا. (قَالَ هَذَا رَحْمَةٌ مِنْ رَبِّي فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ رَبِّي جَعَلَهُ دَكًّا): أَلْزَقَهُ بِالأَرْضِ، وَنَاقَةٌ دَكَّاءُ لاَ سَنَامَ لَهَا، وَالدَّكْدَاكُ مِنَ الأَرْضِ مِثْلُهُ، حَتَّى صَلُبَ وَتَلَبَّدَ، {وَكَانَ وَعْدُ رَبِّي حَقًّا. وَتَرَكْنَا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ} [الكهف: 98] {حَتَّى إِذَا فُتِحَتْ يَأْجُوجُ وَمَأْجُوجُ وَهُمْ مِنْ كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ} [الأنبياء: 96] قَالَ قَتَادَةُ: " حَدَبٌ: أَكَمَةٌ " قَالَ رَجُلٌ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: رَأَيْتُ السَّدَّ مِثْلَ البُرْدِ المُحَبَّرِ، قَالَ: «رَأَيْتَهُ»

3347. حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، حَدَّثَنَا ابْنُ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «فَتَحَ اللَّهُ مِنْ رَدْمِ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ مِثْلَ هَذَا وَعَقَدَ بِيَدِهِ تِسْعِينَ»

مترجم:

ترجمۃ الباب:

اللہ تعالیٰ نے سورۃ کہف میں فرمایا وہ لوگ کہنے لگے یاجوج اور ماجوج لوگ ملک میں بہت فساد مچارہے ہیں ۔تشریح : یہ دونوں قبیلوں کے نام ہیں جو یافث بن نوح کی اولاد میں ہیں، بعض نے کہا کہ یاجوج ترک لوگ ہیں اور ماجوج ایک دوسرا گروہ ہے۔ قیامت کے قریب یہ لوگ بہت غالب ہوں گے اور ہر طرف سے نکل پڑیں گے، ان کا نکلنا قیامت کی ایک نشانی ہے۔ جو لوگ یاجوج ماجوج کے وجود میں شبہ کرتے ہیں وہ احمق ہیں، یاجوج ماجوج آدمی ہیں کوئی عجوبہ نہیں ہیں اور جو روایتیں ان کے قدوقامت کے متعلق منقول ہیں ان کی سندیں صحیح نہیں۔ تورات شریف میں یاجوج ماجوج کا ذکر ہے، بعض نے کہا کہ یاجوج روسی لوگ ہیں اور ماجوج تاتاری۔ بعض نے کہا ماجوج انگریز ہیں۔ ( وحیدی ) صحیح بات یہی ہے کہ حقیقت حال کو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ اہل ایمان کا کام ارشاد الٰہی اٰمنا و صدقنا کہنا ہے۔‏‏‏‏ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا «ويسألونك عن ذي القرنين قل سأتلو عليكم منه ذكرا * إنا مكنا له في الأرض وآتيناه من كل شىء سببا * فاتبع سببا‏» ”اور آپ سے (اے رسول) ذوالقرنین (بادشاہ) کے متعلق یہ لوگ پوچھتے ہیں۔ (آپ فرما دیں کہ) ان کا قصہ میں ابھی تمہارے سامنے بیان کرتا ہوں ہم نے اسے زمین کی حکومت دی تھی اور ہم نے اس کو ہر طرح کا سامان عطا فرمایا تھا پھر وہ ایک سمت چل نکلا .“ اللہ تعالیٰ کے ارشاد «ائتوني زبر الحديد‏» ”تم لوگ میرے پاس لوہے کی چادریں لاؤ، تک۔ «زبر» کا واحد «زبرة» ہے اور «زبرة» ٹکڑے کو کہتے ہیں ”یہاں تک کہ جب اس نے ان دونوں پہاڑوں کے برابر دیوار اٹھا دی۔“ «صدفين‏» سے پہاڑ مراد ہیں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ( «بين الصدفين‏» کی تفسیر میں منقول ہے) اور «السدين الصدفين‏» کی دوسری قرآت بھی «الجبلين» (دو پہاڑ) کے معنی میں ہے۔ «خرجا‏» بمعنی محصول اجرت، ذوالقرنین نے (عملہ سے) کہا کہ اب اس دیوار کو آگ سے دھونکو یہاں تک کہ جب اسے آگ بنا دیا تو کہا اب میرے پاس پگھلا ہوا سیسہ تانبا لاؤ تو میں اس پر ڈال دوں «أفرغ عليه قطرا‏» کے معنی ہیں کہ میں اس پر پگھلا ہوا سیسہ ڈال دوں ( «قطر» کے معنی) بعض نے لوہے (پگھلے ہوئے سے) کئے ہیں اور بعض نے پیتل سے، ابن عباسؓ نے اس کا معنی تانبا بتایا ہے۔ پھر قوم یاجوج و ماجوج کے لوگ (اس سد کے بعد) اس پر چڑھ نہ سکے «يظهروه‏» بمعنی «يعلوه»، «أطعت له» سے استفعال کا صیغہ ہے۔ اسی لیے «أسطاع» «يسطيع» «يستطيع» بھی پڑھتے ہیں اور یاجوج ماجوج اس میں سوراخ بھی نہ کر سکے۔ ذوالقرنین نے کہا کہ یہ میرے پروردگار کی ایک رحمت ہے پھر جب میرے پروردگار کا مقررہ وعدہ آ پہنچے گا تو وہ اس دیوار کو «دكا‏» یعنی زمین کے ساتھ ملا دے گا، عرب کے لوگ اسی سے بولتے ہیں «ناقة دكاء» جس سے مراد وہ اونٹ ہے جس کی کوہان نہ ہو۔ اور «الدكداك من الأرض» کی مثال وہ زمین جو ہموار ہو کر سخت ہو گئی ہو، اونچی نہ ہو اور میرے رب کا وعدہ برحق ہے اور اس روز ہم ان کو اس طرح چھوڑ دیں گے کہ بعض ان کا بعض سے گڈ مڈ ہو جائے گا۔ یہاں تک کہ جب یاجوج ماجوج کو کھول دیا جائے گا اور وہ ہر بلندی سے دوڑ پڑیں گے۔ قتادہ نے کہا کہ «حدب» کے معنی ٹیلہ کے ہیں۔ ایک صحابی نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ میں نے اس دیوار کو دھاری دار چادر کی طرح دیکھا ہے جس کی ایک دھاری سرخ ہے اور ایک کالی ہے، اس پر آپﷺنے فرمایا واقعی تم نے اس کو دیکھا ہے۔

3347.

حضرت ابو ہریرہ  ؓسے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے یا جوج و ماجوج کی دیوار سے اتنا سا کھول دیا ہے۔‘‘ اور اپنے ہاتھ سے نوے کی گرہ لگائی۔